سندھ اور بلوچستان نے 3 فروری کو زرعی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے قانون سازی کی، جس کے بعد تمام صوبوں نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرلی ہیں، جن کے تحت معیشت کے اس اہم شعبے کو منصفانہ طریقے سے ٹیکس کے دائرے میں لانا ضروری تھا اور امید کی جا رہی ہے کہ اس سے محصولات میں اضافہ، ٹیکس کے دائرے کی توسیع اور مالی استحکام حاصل ہوگا۔

یہ قانون جنوری 2025 سے نافذ العمل ہے جس کے تحت زرعی آمدنی کی ٹیکس شرح کو وفاقی پرسنل اور کارپوریٹ ٹیکس کے نظام کے مطابق مرتب کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ سالانہ زرعی آمدنی جو 6 لاکھ روپے تک ہوگی وہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگی جبکہ 56 لاکھ سالانہ سے زائد آمدن پر زیادہ سے زیادہ 45 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ سالانہ آمدن جو 150 ملین روپے یا اس سے زیادہ ہوگی، اس پر ایک پروگریسو سپر ٹیکس لگایا جائے گا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ کارپوریٹ زراعت کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب وہ واحد صوبہ تھا جس نے آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ مدت، یعنی 31 دسمبر 2024 تک، زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کے لیے قانون سازی کی۔

مزید برآں پنجاب کے زرعی ٹیکس کے قوانین میں زراعت کو کاشتکاری اور مویشیوں سے متعلق سرگرمیوں تک وسیع کیا گیا ہے جبکہ سندھ کی قانون سازی میں زراعت کی تعریف صرف کاشتکاری تک محدود ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب پنجاب نے زرعی انکم ٹیکس کا قانون بنایا تھا تو وفاقی حکومت نے اس قانون میں مویشیوں کو شامل کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وفاقی دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں سندھ نے لائیو اسٹاک کو بڑی آسانی سے اپنی قانون سازی سے خارج کردیا۔

تاہم مرکز کا یہ موقف کہ مویشی وفاقی دائرہ اختیار میں آتے ہیں، ایک اہم سوال اٹھاتا ہے۔ کئی سال تک وفاقی حکومت نے یہ دلیل دی تھی کہ وہ زرعی شعبے کو انکم ٹیکس کے دائرے میں نہیں لا سکتی کیونکہ یہ صوبائی معاملہ ہے۔

تاہم، اگر مرکز کے مطابق، لائیو اسٹاک ہمیشہ سے ایک وفاقی موضوع رہا ہے، تو اسے اس شعبے پر مناسب ٹیکس لگانے سے کس چیز نے روکا تھا؟ واضح رہے کہ مویشیوں کی پیداوار میں متعدد سرگرمیاں شامل ہیں، جن میں دودھ کی پیداوار اور اس کی فروخت، گوشت کی پروسیسنگ اور زندہ جانوروں کی تجارت شامل ہیں۔

یہ سرگرمیاں معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، اس لیے وفاقی حکام، خاص طور پر ایف بی آر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مویشیوں کی پیداوار کا اسٹیٹس واضح کریں اور یہ طے کریں کہ آیا صوبوں کو — خاص طور پر پنجاب، جیسا کہ اس نے اپنی زرعی آمدنی کے ٹیکس کے دائرے میں اسے شامل کیا ہے — اس شعبے پر ٹیکس لگانے کی ذمہ داری ہونی چاہیے یا نہیں۔

پنجاب کے زرعی ٹیکس قانون کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو ہے جس کا ذکر کرنا ضروری ہے۔دیگر صوبوں میں منظور کیے گئے قوانین کے برعکس پنجاب کی قانون سازی براہ راست ٹیکس کی شرح کا تعین نہیں کرتی بلکہ اس کے بجائے اس اختیار کو ایگزیکٹو رول میکنگ کے حوالے کرتی ہے۔

اس طریقہ کار کی ظاہری وجہ شاید یہ تھی کہ اگر صوبائی حکومت نے اس قانون میں قابل ذکر ٹیکس کی شرح شامل کی ہوتیں تو اسے قانون کی منظوری حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتیں۔

تاہم، ایگزیکٹو رول میکنگ کو شرح میں تبدیلی کے لیے چھوڑ دینا، بغیر واضح قانون ساز رہنمائی کے، شفافیت سے متعلق خدشات اور خودمختار فیصلے کرنے کے خطرات کو جنم دیتا ہے، اور صوبائی حکام کو چاہیے کہ وہ ان تشویش کو دور کریں۔

مندرجہ بالا امور کے بارے میں انتہائی ضروری وضاحت کے علاوہ، صوبائی حکومتوں کو درست ٹیکس تخمینوں کو یقینی بنانے اور ٹیکس چوری کو کم کرنے کے لئے اراضی کے ریکارڈ کی درست اور مکمل ڈیجیٹلائزیشن سے متعلق چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر ٹیکس وصولی کی کوششوں کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے اور مجموعی طور پر نظام کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے بہتر تربیت اور وسائل کے ذریعے ریونیو افسران کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا ضروری ہوگا۔

ملک کی کمزور مالی صورتحال، معیشت کے صرف چند حصوں پر غیر متناسب ٹیکس کے بوجھ اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے مایوس کن تناسب کو دیکھتے ہوئے، زیادہ منصفانہ اور پائیدار محصولات کی پیداوار کو یقینی بنانے کے لئے زراعت جیسے اہم شعبے کو انکم ٹیکس فریم ورک میں لانا طویل عرصے سے ضروری تھا۔

امید کی جا سکتی ہے کہ حالیہ ہفتوں میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات بالآخر وسیع تر اقتصادی شراکت داری کو فروغ دیں گے اور ملک کے مالی استحکام کو مزید مستحکم کریں گے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف