پیکا ایکٹ کیخلاف صحافیوں کا یوم سیاہ، ملک گیر احتجاجی مظاہرے
- پی ایف یو جے کا قانون کیخلاف احتجاج میں شدت لانے کا انتباہ
صحافیوں نے جمعہ کے روز متنازع پیکا ترمیمی بل 2025 کے خلاف یوم سیاہ منایا اور ملک گیر احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔
سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔
سب سے بڑا احتجاج نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں کیا گیا جہاں صحافیوں نے ”پیکا ایکٹ کو مسترد کریں“ اور ”صحافتی آزادی پر کوئی پابندی نہ لگائیں“ جیسے نعرے بھی لگائے۔
احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ نے احتجاج کی کال پر بھرپور ردعمل دینے پر صحافی برادری کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے ”ظالمانہ قانون“ کے خلاف احتجاج کو ملک بھر میں پھیلانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
افضل بٹ نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر قانون پر نظر ثانی نہیں کی گئی تو وہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دیں گے اور جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ دھرنے پر بیٹھے رہیں گے۔
انہوں نے ماضی میں کی جانے والی جدوجہد کی یاددہانی کرائی، جس میں جنرل ضیاء کے دور میں ہونے والی گرفتاریاں اور مشکلات شامل تھیں، اور عہد کیا کہ اس بار وہ کسی بھی معاملے پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے جنرل مشرف کے دور حکومت میں تین ماہ تک جاری رہنے والے دھرنے کا ذکر کیا اور کہا کہ اب ایک نیا اور فیصلہ کن معرکہ شروع ہو چکا ہے۔
شہر قائد میں کراچی یونین آف جرنلسٹس نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کا انعقاد کیا جہاں صحافیوں نے سیاہ پرچم لہرائے اور وکلا اور صحافیوں نے بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج میں شرکت کی اور ریلی بھی نکالی۔ سینئر صحافی مظہر عباس نے اعلان کیا کہ اگر بل واپس نہیں لیا جاتا تو وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے، پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیں گے اور بھوک ہڑتال کریں گے۔
لاہور میں بھی یوم سیاہ منانے کے ساتھ ساتھ صحافیوں نے لاہور پریس کلب میں سیاہ پرچم لہرائے، پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ارشد انصاری نے اعلان کیا کہ اس قانون کے خلاف تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے آئندہ ہفتے سینٹ اور قومی اسمبلی کی طرف مارچ کرنے اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا۔
سی پی این ای کے صدر ارشاد عارف نے کہا کہ پیکا ترمیمی بل صرف صحافیوں پر حملہ نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر عوام کو خاموش کرانے کی کوشش ہے۔
حیدرآباد اور میرپور خاص سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے جہاں پریس کلبز پر سیاہ جھنڈے لہرائے گئے۔ کندھ کوٹ، خیرپور، جیکب آباد، گمبٹ، شکارپور اور سجاول میں بھی صحافیوں نے احتجاج کیا اور متنازع پیکا آرڈیننس کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔
بلوچستان کے علاقے کوہلو میں صحافیوں نے پیکا ایکٹ کی مذمت کرتے ہوئے اسے بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
پیکا ایکٹ
یاد رہے کہ جمعرات کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے سیاسی جماعتوں، صحافی تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بڑے پیمانے پر رد عمل کے باوجود جمعرات کو پیکا ایکٹ 2016 میں ترامیم کی منظوری دی تھی۔
نئی دفعات میں حکومت کی جانب سے ’جعلی خبروں‘ کے لیے سخت سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی ریاستی نگرانی کو وسعت دی گئی ہے اور سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے نئے ریگولیٹری اداروں کے قیام پر غور کیا گیا ہے۔
بل کی دفعہ 26 اے میں لکھا گیا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی معلوماتی نظام کے ذریعے ایسی معلومات پھیلائے، عوامی طور پر ظاہر کرے یا منتقل کرے، جسے وہ غلط یا جعلی سمجھتا ہو اور اس سے عوام میں خوف پھیلا یا وہ بدامنی کا سبب بنے تو اس شخص کو 3 سال تک کی قید یا دو لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
مجوزہ قانون میں سوشل پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی، سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل جیسے اداروں کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔
بل کے مطابق اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو آن لائن مواد ہٹانے یا بلاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرے، اگر ایسا آن لائن مواد: (الف) نظریہ پاکستان کے خلاف ہو۔ (ب) عوام کو قانون توڑنے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر اکسائے تاکہ عوام، افراد، گروپوں، کمیونٹیز، حکومتی افسران اور اداروں کو زبردستی کرنے، دھمکی دینے یا دہشت گردی کرنے پر اکسائے۔ (ج) عوام یا کسی طبقے کو حکومتی یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے پر اکسائے۔ (د) عوام یا کسی طبقے کو کو زبردستی یا دھمکی دے کر ان کو اپنے جائز کام جاری رکھنے سے روکے اور شہری زندگی کو متاثر کرے۔ (ہ) مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کیلئے اکسائے تاکہ تشدد کو ہوا دی جاسکے یا داخلی سطح پر عدم اطمینان پیدا کیا جاسکے۔ (و) کسی قابل اطلاق قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فحاشی یا عریانی پر مشتمل ہو۔ (ز) جعلی یا جھوٹا ہو یا اس کے جعلی یا جھوٹا ہونے کی معقول وجوہات ہوں۔ (ح) فوج ، عدلیہ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے اراکین سمیت کسی شخص کی کردار کشی کیلئے جھوٹے الزامات پر مبنی ہو۔ (ط) دہشت گردی اور ریاست یا اس کے اداروں کے خلاف تشدد کی دیگر اقسام کو فروغ دیتا ہو۔
اس کے علاوہ سینیٹ نے وزیر قانون کی جانب سے پیش کردہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 منظور کیا۔ وزیر نے کہا کہ بل کا مقصد “جدید دور کی ضروریات کے مطابق پورے نظام کو ڈیجیٹلائز کرنا ہے۔
Comments