قائمہ کمیٹی سینیٹ نے ایف بی آر افسران کے تربیتی پروگراموں کی ’افادیت‘ پر سوالات اٹھا دیے
- مالی سال 25 کی پہلی ششماہی میں 384 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال ریکارڈ کیا گیا، قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات نے جمعرات کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران کے لیے گزشتہ 20 سالوں میں منعقدہ تربیتی پروگراموں کی افادیت پر سوالات اٹھادیے۔ یہ بات ایک سرکاری بیان میں یہ بات سامنے آئی۔
یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب ایف بی آر نے مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں 384 ارب روپے کی محصولات کی کمی رپورٹ کی۔
کمیٹی، جس کی قیادت سینیٹر سلیم مانڈوی والا کر رہے تھے، نے ایف بی آر افسران کے لیے تربیتی پروگراموں کے نتائج پر تفصیلی معلومات طلب کیں۔
بیان میں کہا گیا کہ میٹنگ کا ایک اہم حصہ ایف بی آر افسران کے لیے جاری تربیتی پروگراموں پر مرکوز تھا، جو 20 سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے سوال اٹھایا کہ ایف بی آر افسران کو دی گئی تربیت سے کیا حاصل ہوا۔ میٹنگ میں شریک سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے کمیٹی کو جامع تفصیلات فراہم کرنے کا یقین دلایا۔
اجلاس کے دوران کمیٹی کو مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان کے موجودہ 2384 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال بارے میں بریفنگ دی گئی۔
ایف بی آر نے 5 ہزار 624 ارب روپے ٹیکس جمع کیے جو ہدف 6 ہزار 8 ارب روپے سے کم ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ دوسری سہ ماہی میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب بڑھ کر 10.8 فیصد ہو گیا ہے، جو پہلی سہ ماہی میں 9.5 فیصد تھا حالانکہ یہ پروگرام کے اختتام تک آئی ایم ایف کے طے شدہ 13.6 فیصد کے ہدف سے کم ہے۔
اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس کے برعکس بھارت کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 18 فیصد ہے۔
سینیٹر مانڈوی والا نے ایف بی آر کی جانب سے سیلز ٹیکس وصولی کے معاملات سنبھالنے کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ کئی بار ہم نے ایف بی آر سے اشیا پر سیلز ٹیکس وصول کرنے کا کہا لیکن ایف بی آر کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔
اجلاس میں شریک وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جاری اصلاحات پر روشنی ڈالی، جن میں ملازمین کے لیے انکم ٹیکس فارم کو سادہ بنانے کی کوشش اور کسٹمز میں فیس لیس سسٹم جیسی تکنیکی جدتوں کے ذریعے ٹیکس کی وصولی میں شفافیت لانے کا اقدام شامل ہیں۔
انہوں نے آئندہ مالی سال میں ٹیکس پالیسی کو ایف بی آر کے آپریشنز سے الگ کرنے کے حکومتی ارادے پر بھی تبادلہ خیال کیا جس کا مقصد تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ٹیکس فارم کو سادہ اور آسان رکھنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، 60 سے 70 فیصد ملازمین سپر ٹیکس کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔
ایف بی آر افسران کیلئے 1010 گاڑیوں کی خریداری
دریں اثنا سینیٹر فیصل واوڈا نے ایف بی آر کی جانب سے 1010 گاڑیوں کی خریداری کے عمل پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ جس کمپنی کو آرڈر دیا گیا تھا اس پر چھاپہ مارا گیا۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ایف بی آر افسران نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں اور انہوں نے دھمکیوں میں ملوث افراد کی نشاندہی کی ہے۔
ان الزامات کے جواب میں چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال اور محمد اورنگزیب نے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرانے کی یقین دہانیاں کرائی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، کمیٹی اس معاملے کو مزید تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کو بھیجے۔
چیئرمین ایف بی آر نے اعلان کیا کہ گاڑیوں کی خریداری کا عمل اس وقت تک روک دیا جائے گا جب تک کہ اس عمل کا مکمل جائزہ مکمل نہیں ہو جاتا۔
سینیٹر مانڈوی والا نے پروکیورمنٹ کے عمل میں شفافیت کی اہمیت پر زور دیا اور پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیپرا) بورڈ سے مطالبہ کیا کہ وہ پروکیورمنٹ رولز کے مطابق گاڑیوں کی خریداری کا جائزہ لے۔
انہوں نے کہا کہ پیپرا رولز کے بغیر خریداری نہیں کی جاسکتی۔
کاربن ٹیکس
کمیٹی نے بعض ٹیکسوں کو کاربن ٹیکس میں تبدیل کرنے کے امکان پر بھی تبادلہ خیال کیا، جس کی تجویز سینیٹر شیری رحمان نے پیش کی۔
وزیر خزانہ نے عالمی بینک کے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کا اعتراف کیا جس میں موسمیاتی تبدیلی اور کاربن کے خدشات شامل ہیں جبکہ سینیٹر فاروق ایچ نائیک سمیت کچھ ارکان نے افراط زر پر کاربن ٹیکس کے اثرات اور غریبوں پر اس کے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔
کمیٹی نے ٹیکس دہندگان پر انتظامی بوجھ کو کم کرنے کے لئے اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی بھی تاکید کی کہ ٹیکس وصولی موثر اور منصفانہ رہے۔
Comments