یورپی یونین کو ’غیر معیاری‘ چاول کی فراہمی، وزارت تجارت نے برآمد کنندگان اور ٹی پی پی پر الزام عائد کردیا
وزارتِ تجارت نے چاول کے برآمد کنندگان اور محکمہ تحفظِ نباتات (ڈی پی پی) کے اہلکاروں پر ملی بھگت کا الزام عائد کیا ہے، جس کے تحت یورپی یونین (ای یو) کے ممالک میں ناقص معیار کے چاولوں کی کلیئرنس کرائی گئی، جو بعد میں پکڑے گئے۔ یہ معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں زیرِ بحث آیا، جس کی صدارت جاوید حنیف خان نے کی۔ یہ اجلاس رکنِ قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی کی توجہ دلاؤ نوٹس پر طلب کیا گیا تھا، جنہوں نے یورپی یونین کو پاکستانی چاول کی برآمدات میں شدید رکاوٹوں اور اس سے قومی خزانے کو پہنچنے والے مالی نقصانات پر تشویش کا اظہار کیا۔
شرمیلا فاروقی نے ڈی پی پی کے اہلکاروں پر چاول کے ناقص معیار کے باوجود جعلی سرٹیفکیٹس جاری کرنے کا الزام لگایا۔ سال 2023 میں یورپی یونین کے ممالک نے 72 بار چاول کی کھیپ روک لی تھی، تاہم دسمبر 2024 تک یہ تعداد کم ہو کر ماہانہ اوسطاً آٹھ رہ گئی، جو صورتحال بہتر ہونے کا اشارہ ہے۔ ان کھیپوں کے روکنے کی بنیادی وجہ کسانوں کی جانب سے کھاد اور کیڑے مار ادویات کا غیر معیاری یا حد سے زیادہ استعمال تھا، جس کی وجہ سے کم از کم باقیات کی بیماری (ایم آر ڈی) کے مقررہ معیار پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تھا۔ ان چیلنجز کے باوجود، پاکستان نے گزشتہ سال 4 ارب ڈالر کی چاول برآمدات کیں۔
تاہم، سیکریٹری تجارت جواد پال نے واضح کیا کہ یورپی یونین نے باضابطہ طور پر چاول کے معیار پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ دوسری جانب، کمیٹی کے اراکین خورشید جونیجو اور مرزا اختیار بیگ نے پاکستان کے ریگولیٹری فریم ورک میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی۔ اسپیشل سیکریٹری تجارت شکیل احمد منگیجو نے اعلان کیا کہ ڈی پی پی کی جگہ ایک نیا ادارہ قائم کیا جائے گا، جو غذائی تحفظ کو یقینی بنائے گا۔ ڈی پی پی کی صلاحیت میں بہتری کے لیے تنظیم نو کی گئی ہے اور نااہل افسران کو ہٹایا گیا ہے۔
پنجاب اور سندھ پاکستان کی چاول برآمدات میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، اور یورپی یونین کی جانب سے کھیپ کی روکاوٹوں نے ان کی برآمدات پر بڑا اثر ڈالا۔ وزارتِ تجارت نے وضاحت کی کہ یورپی یونین نے کوئی باضابطہ وارننگ جاری نہیں کی، لیکن مضبوط غذائی تحفظ کے فریم ورک کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا۔ اس حوالے سے ایک نیا بااختیار ادارہ تجویز کیا گیا ہے، جو بہتر نگرانی اور بین الاقوامی معیارات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔
ڈی پی پی میں کرپشن کے الزامات پر بات کرتے ہوئے، شکیل منگیجو نے اعتراف کیا کہ برآمد کنندگان اور حکام دونوں اس میں ملوث تھے، کیونکہ برآمد کنندگان بھی اپنی کھیپ کی کلیئرنس کے لیے جعلی سرٹیفکیٹ جمع کراتے تھے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے، اب ایک جرمن کمپنی سے تصدیق کرانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے، تاہم چاول کی کھیپ کے منزل تک پہنچنے میں 30 دن لگنے کی وجہ سے مسائل پھر بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
یورپی یونین سمیت دیگر عالمی منڈیوں میں چاول کی برآمد کو مستحکم رکھنے کے لیے حکومت نے درج ذیل اقدامات کیے ہیں:
1 . چاول کے لیے کم از کم برآمدی قیمت (ایم ای پی) کی شرط کا خاتمہ۔
2. نباتاتی صحت کی جانچ اور سرٹیفکیشن کے نظام کو مضبوط بنانا۔
3. برآمد کنندگان کی یورپی یونین کے ضوابط پر عملدرآمد کی استعداد بڑھانا۔
4. کسانوں کے لیے آگاہی مہم کا انعقاد۔
5. یورپی یونین اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ روابط کو فروغ دینا۔
6. قانون سازی اور ضوابط میں اصلاحات۔
7. ڈی پی پی کی تنظیم نو اور بہتری۔
8. نئی عالمی منڈیوں تک رسائی اور موجودہ مارکیٹ شیئر میں اضافہ۔
قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے پر مزید غور کے لیے وزارتِ قومی غذائی تحفظ، ڈی پی پی اور چاول برآمد کنندگان کے عہدیداروں کی موجودگی میں آئندہ اجلاس منعقد کیا جائے گا تاکہ ایک مستقل حل وضع کیا جا سکے۔
اجلاس میں دیگر تجارتی معاملات پر بھی غور کیا گیا۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو ایک خط لکھ کر چار شوگر ملوں کے خلاف بند کی گئی تحقیقات کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو منتقل کرنے کی درخواست کی ہے۔ ٹی سی پی نے مزید بتایا کہ اس کے مختلف سرکاری اداروں سے 305.244 ارب روپے واجب الادا ہیں، جن میں 93.693 ارب روپے اصل رقم اور 211.550 ارب روپے سود شامل ہے۔ ٹی سی پی نے اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے قائمہ کمیٹی کی حمایت طلب کی۔
کمیٹی نے وزارتِ تجارت کے مجموعی نظام کو بہتر بنانے کی سفارش کی اور وزارت کے تحت کام کرنے والی انشورنس کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (سی ایس آر) کی شراکت میں اضافہ کریں اور ان فنڈز کو مؤثر طریقے سے استعمال کریں۔
مزید برآں، ڈیفالٹ کرنے والی شوگر ملوں کے معاملے پر بھی غور کیا گیا، اور نادہندگان کو بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ کمیٹی نے کوالٹی کنٹرول اور معائنہ کے عمل کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا، اور نیشنل فوڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ناقص معیار کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل نہ کرنے پر تنقید کی۔ حکومت ایک نئے ریگولیٹری ادارے کے قیام پر غور کر رہی ہے تاکہ اس شعبے میں نگرانی اور بہتری لائی جا سکے۔
علاوہ ازیں، حکومت کے 2029 تک 60 ارب ڈالر کی برآمدات کے ہدف پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ کمیٹی کے اراکین نے اس ہدف کے قابلِ عمل ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور وزارت پر زور دیا کہ وہ اس ہدف کے حصول کے لیے تفصیلی حکمتِ عملی پیش کرے، جس پر آئندہ اجلاس میں غور کیا جائے گا۔
یہ اجلاس متعدد ارکانِ قومی اسمبلی کی فزیکل اور ورچوئل موجودگی میں منعقد ہوا، جس میں وزارتِ تجارت، این آئی سی ایل، پاک ری، ایس ایل آئی سی، اور ڈیڈاپ کے سینئر افسران نے بھی شرکت کی۔ بحث کے دوران پاکستان کے برآمدی شعبے اور ریگولیٹری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments