محکمہ موسمیات کی جانب سے ملک کے بیشتر حصوں میں طویل خشک سالی کے بارے میں دی گئی وارننگ کو اسلام آباد میں بہت سنجیدہ لیا جانا چاہیے، خاص طور پر اس لیے کہ اس میں بہتری کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ سیزن کا دوسرا نصف بھی پہلے نصف کی طرح خشک رہنے کا امکان ہے۔
ستمبر 2024 سے جنوری 2025 تک بارشیں معمول سے 40 فیصد کم رہی ہیں، جس کی وجہ سے سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں پانی کی کمی ہے۔ وسطی اور مشرقی بحر الکاہل میں پانی کے درجہ حرارت میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ جاری ایل نینو رجحان پاکستان کے پہلے سے غیر یقینی آبی وسائل کو مزید متاثر کر سکتا ہے جس سے زراعت، پینے کا پانی اور آبی ذخائر متاثر ہوسکتے ہیں۔
اب نیشنل ڈراؤٹ مانیٹرنگ سینٹر (این ڈی ایم سی) موسمی حالات کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں کم بارشوں اور بڑھتے درجہ حرارت کے پیش نظر، فلیش ڈراؤٹ (خشک سالی کی تیز رفتار شدت) کا بھی خدشہ منڈلا رہا ہے۔ یہ ایک مناسب قومی ایمرجنسی ہے، پھر بھی اس نے ابھی تک اتنی فوری اور سیاسی خواہش پیدا نہیں کی ہے جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کے آبی مسائل نئے اور نہ ہی غیر متوقع ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظاموں میں سے ایک کا رکھنے کا اعزاز حاصل ہے، پھر بھی بدانتظامی، ضیاع اور منصوبہ بندی کی شدید کمی کی بدولت ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔
وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی تحقیقی رپورٹس کے مطابق اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو ملک میں پانی کی سطح یا اس کے ذخائر تیزی سے معدوم ہوجائیں گے۔ اس خوفناک انتباہ کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے لیکن سیاسی قیادت نے خود کو بڑی حد تک کارروائی کے بجائے بیان بازی تک محدود کر رکھا ہے۔ اس طرح کی لاپرواہی کے نتائج ہماری آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک جامع نقطہ نظر اپنایا جائے جو پانی کو سیاسی سودے بازی کے بجائے قوم کیلئے زندگی کے طور پر دیکھے۔
ڈیموں کی تعمیر جیسے وسیع بنیادی ڈھانچوں کی منصوبے ضروری ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ پانی کے تحفظ اور آبپاشی کی موثر تکنیک میں بھی اتنی ہی اہم سرمایہ کاری ہونی چاہیے۔ بارش کے پانی کو جمع کرنا، زیر زمین ذخائر کو دوبارہ بھرنا اور آبپاشی کے جدید طریقوں جیسے ڈرپ اور اسپرنکل سسٹم کو اپنانا اب اختیاری نہیں ہے۔ یہ ہماری بقا کیلئے ناگزیر ذرائع بن چکے ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ صورتحال کی سنگینی سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے بھی اقدامات کرے۔ گھریلو سطح پر پانی کا ضیاع، اگرچہ انفرادی پیمانے پر کم ہے لیکن مجموعی طور پر یہ وسائل پر بوجھ بن جاتا ہے۔ تحفظ کے لئے ترغیبات کی مدد سے آگاہی مہم، پالیسی اور عمل کے درمیان فرق کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
حکام سے پیشگی تیاری کی درخواست کی جاتی ہے تاکہ پانی کے ذخائر کو منظم کیا جا سکے اور بچت کے اقدامات اپنائے جا سکیں۔ یہ چیلنجز اس بات کی شدت کو اجاگر کرتے ہیں کہ طویل المدتی پانی کی منصوبہ بندی کی ضرورت کتنی اہم ہے تاکہ ممکنہ آفات سے بچا جا سکے۔ ہمیں چاہیئے کہ یا تو فوری طور پر اقدامات کریں تاکہ اپنے آبی مستقبل کو محفوظ بنا سکیں، یا پھر ہم خود کو زراعت کے خاتمے، خوراک کی کمی اور سماجی بدامندی جیسے بحرانوں کے ایک طویل سلسلے کے حوالے کردیں۔
Comments