مالی سال 2024-25 کی پہلی ششماہی میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں سالانہ 10 فیصد اضافہ ایک ایسی معیشت کیلئے خوش آئند خبر ہے جو اکثر چیلنجز سے بھری رہتی ہے اور ہمیشہ ذخائر بنانے کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2024 میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں ابتدائی طور پر 3 فیصد کمی دیکھی گئی تاہم اس کے بعد کے مہینوں میں مثبت نمو دیکھنے میں آئی، اگست میں برآمدات کی آمدنی میں 13 فیصد، ستمبر میں 18 فیصد، اکتوبر میں 13 فیصد، نومبر میں 11 فیصد اور دسمبر میں 6 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ٹیکسٹائل کا شعبہ بلاشبہ پاکستان کے اہم اقتصادی ستونوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ نہ صرف زرمبادلہ ذخائر میں اہم کردار ادا کرتا ہے بلکہ ویلیو چین میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر لاکھوں افراد کو روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا ٹیکسٹائل کی ترقی کی رفتار ہمیشہ جشن منانے کے لائق ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے کہ آنے والے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے یہ راستہ کتنا پائیدار ہوگا۔
سب سے اہم تشویش توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنے قرض کی شرائط کے تحت پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالا ہے کہ وہ سبسڈیز کا خاتمہ کرے اور توانائی کی قیمتوں کو مارکیٹ کی شرح کے مطابق لائے۔اس کا مطلب ہے کہ گیس کی لاگت میں خاطر خواہ اضافہ جو ٹیکسٹائل کی پیداوار کے لیے ایک اہم ان پٹ ہے۔ ایک ایسے شعبے کیلئے جو پہلے ہی بہت کم مارجن پر کام کر رہا ہے اور بنگلہ دیش، ویتنام اور بھارت جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے، توانائی کی قیمتوں میں کسی بھی نمایاں اضافے کا اثر تباہ کن ہوسکتا ہے۔
پھر بھی عالمی مالیاتی فنڈ کسی قسم کی لچک دکھانے کے آثار نہیں دکھا رہا، اور واضح طور پر صنعتی کیپٹیو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو گیس کی فراہمی پر قابلِ ذکرلیوی عائد کرنے کا مطالبہ کررہا ہے تاکہ گرڈ پاور اور ان کی اندرون ملک بجلی کی پیداوار کے درمیان کسی بھی قیمت کے فائدے کو ختم کیا جا سکے۔ 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) کے تحت، پاکستان کو ایک اہم ساختی معیار کو پورا کرنا ہے جس کے تحت جنوری 2025 کے آخر تک کیپٹیو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو گیس کی فراہمی منقطع کرنا ضروری ہے تاکہ مارچ میں ایک ارب ڈالر کی سات قسطوں میں سے دوسری قسط کی ادائیگی کے اہل ہو سکیں۔۔
توانائی ٹیکسٹائل کی پیداوار کے اخراجات میں ایک اہم حصہ ہے، خاص طور پر ان یونٹس کے لیے جو گیس سے چلنے والے کیپٹیو پاور پلانٹس (سی پی پیز) پر انحصار کرتے ہیں۔ غیر متوازن اور مہنگی توانائی نہ صرف مسابقت کو کمزور کرتی ہے بلکہ پیداواری ٹائم لائنز میں بھی خلل ڈالتی ہے، جس سے برآمد کنندگان کی عالمی طلب کو پورا کرنے کی صلاحیت مزید کم ہوجاتی ہے۔ اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ گیس کی قیمتیں آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت تیزی سے بڑھنے کی توقع ہے، جس سے پالیسی سازوں کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ اچانک انہیں آئی ایم ایف کی ذمہ داریوں اور صنعت کی ضروریات کے درمیان توازن قائم کرنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔
برآمدی شعبوں کیلئے خصوصی توانائی کی قیمتوں کا تعین، قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری اور توانائی کی بچت کے اقدامات کچھ حد تک ریلیف فراہم کر سکتے ہیں، لیکن یہ سب وقت طلب ہیں اور حکومت پہلے ہی اس مسئلے کو اتنا بڑھنے دینے کی مجرم ہے کہ اب اسے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔رپورٹس کے مطابق، پاکستان نے پہلے ہی آئی ایم ایف سے اس ساختی معیار کو تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی، اس بنیاد پر کہ بجلی کے گرڈ کی استحکام اور فراہمی کے کچھ چیلنجز ہیں۔ لیکن یہ درخواست منظور نہ ہو سکی اور قرض دہندہ نے بجلی کی فراہمی کے چیلنج کی صورت میں سی پی پیز کے لئے ایل این جی کی موجودہ قیمت کے اوپر 1700 سے 1800 روپے فی یونٹ (ملین برٹش تھرمل یونٹ یا ایم ایم بی ٹی یو) عائد کرنے کی تجویز دی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اب اور فروری-مارچ کے درمیان کچھ غیر متوقع نہیں ہوتا، تب تک کسی پیش رفت کا امکان بہت کم ہے اور دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بھی اخراجات میں اضافے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس سے برآمدات، محصولات اور ذخائر پر کیا اثر پڑے گا، اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments