سندھ اسمبلی نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی جانب سے ٹول ٹیکسز میں مسلسل اضافے کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی۔

قرارداد پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی ہیر اسماعیل سوہو نے پیش کی جس میں گزشتہ چند ماہ کے دوران شاہراہوں اور موٹرویز پر ٹول ٹیکسوں میں بار بار اضافے پر این ایچ اے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اگرچہ سرکاری نوٹیفکیشن میں سندھ میں کسی شاہراہ یا موٹر وے کا خاص طور پر ذکر نہیں کیا گیا ہے، لیکن اضافی ٹیکس اب بھی صوبے کے اندر وصول کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ”این ایچ اے کو ’پنجاب ہائی وے اتھارٹی‘ کا نام دے دینا چاہیے، کیونکہ یہ سندھ میں سڑکوں کی خستہ حالت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ اگر پاکستان میں سب سے خراب حالت میں کوئی سڑک ہے تو وہ کراچی سے حیدرآباد اور سکھر جانے والی سڑک ہے۔“

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کراچی سے سکھر تک لوگوں سے دو یا تین ہزار روپے تک ٹول ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ گزشتہ سات ماہ میں ٹول ٹیکس میں تین بار اضافہ کیا گیا ہے۔

سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد صرف سندھ کے عوام کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے ہے۔ این ایچ اے سندھ کی سڑکوں کو نظر انداز کرکے اس کے ساتھ بدسلوکی کر رہا ہے جس کی حالت بہت خراب ہے اور اس کے نتیجے میں حادثات پیش آرہے ہیں جبکہ وفاقی حکومت ٹیکس جمع کرتی ہے لیکن اس کے مطابق کوئی سہولیات فراہم نہیں کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ برسوں کی غفلت کے باوجود نئے ٹول پلازے قائم کیے جا رہے ہیں جبکہ حیدرآباد سکھر روڈ پاکستان کی بدترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔شرجیل میمن نے مزید کہا کہ یہ سڑک صرف سندھ کے باشندے ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ ملک بھر کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔

اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے رکن محمد شبیر قریشی کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کثرت رائے سے مسترد کردی گئی۔ قریشی نے سرما میں گیس کی شدید قلت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف کراچی کے سی این جی اسٹیشنز بند کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے منصفانہ سلوک کی بات کی اور مطالبہ کیا کہ پاکستان بھر میں پٹرول پمپس بھی بند کیے جائیں تاکہ اس مسئلے کا حل نکل سکے۔ تاہم قرارداد کو حمایت نہیں مل سکی اور بالآخر اسے مسترد کردیا گیا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف