ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے غربت کے تخمینے کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فیصد رہی جو 2023 کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ ہے جس سے مزید ایک کروڑ 30 لاکھ افراد غربت کی دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غربت میں متوقع اضافے کے علاوہ غریب گھرانوں کو غیر متناسب طور پر زیادہ فلاحی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ مزید غربت کی جانب چلے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا کہ نئے گھرانے کے سروے کی عدم موجودگی کے ساتھ ڈیٹا کی کمی ہے تاہم انہوں نے ایک مائیکرو سیمولیشن ٹول کا استعمال کیا ہے جس میں تازہ ترین قومی گھریلو سروے (پاکستان بیورو برائے شماریات کی جانب سے 2023 کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے طور پر گزشتہ ہفتے اپ لوڈ کیے گئے)کے مائیکرو ڈیٹا کو ہائی فریکوئنسی میکرو انڈیکیٹرز کے ساتھ ملاکر پیش گوئیاں جاری کی ہیں: موجودہ پیش گوئی اور مستقبل کی پیش گوئی۔“

رپورٹ میں غربت کی شرح میں اضافے کو اجاگر کیا گیا ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس ٹول نے افراد اور گھریلو خصوصیات کو استعمال کرتے ہوئے گھریلو خرچ کا ماڈل تیار کیا ہے اور لیبر مارکیٹ، مہنگائی، سماجی منتقلیوں اور ترسیلات زر میں تبدیلیوں کو مدنظر رکھا ہے۔

یہ دعویٰ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی رپورٹ کی بنیاد پر رد ہو جائے گا، جیسا کہ 10 اکتوبر 2024 کو جاری ہونے والی ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی کے اسٹاف رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ “مالی سال 16 کی نیشنل اکاؤنٹس کی ری بیسنگ اور حالیہ سہ ماہی جی ڈی پی کی اشاعت نے اقتصادی ترقیات کا جائزہ لینے کیلئے بہتر بنیاد فراہم کی ہے لیکن جی ڈی پی کے ایک تہائی حصے کے لیے دستیاب ذرائع کے اعداد و شمار میں اہم خامیاں ہیں، اور جی ایف ایس (حکومتی مالیاتی اعداد و شمار) کی تفصیلات اور اسکے قابل اعتبار ہونے کے مسائل بھی موجود ہیں، اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف نے جی ایف ایس اور پروڈیوسر پرائس انڈیکس پر تکنیکی معاونت فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

پاکستانی حکام نے اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے یادداشت میں اس کی تصدیق کی، جس میں کہا گیا:’حکومتی مالیاتی شماریات کی تفصیلات اور قابل اعتمادیت کو بڑھانا ہماری اعلیٰ ترجیح ہے اور ہم نے آئی ایم ایف سے تکنیکی معاونت کی درخواست کی ہے تاکہ موجودہ ڈیٹا کے ذرائع اور ترتیب کے عمل کا جائزہ لیا جا سکے اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق مالی رپورٹنگ میں بہتری کے لیے رہنمائی فراہم کی جا سکے۔

”چاہے جو بھی ہو، اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ پاکستان میں غربت کی سطح ایک سنگین اور خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، گزشتہ سال ورلڈ بینک کی رپورٹ میں مالی سال 2024 کے لیے کم درمیانی آمدنی کی غربت کی شرح 40.5 فیصد (یعنی 2017 کی قوت خرید کے مطابق 3.65 ڈالر فی دن) بتائی گئی ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں مزید 2.6 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے آ گئے ہیں۔“

اور انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ تازہ ترین ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں 13 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، جو کہ 2.6 ملین کے ابتدائی تخمینے سے 10.4 ملین زیادہ ہیں، یہ تمام فریقین، بشمول نگراں حکومتوں، کے دعووں کو خاموش کردینا چاہیے کہ معیشت بہتر ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے معیار میں بھی استحکام آرہا ہے۔

صرف یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اقتصادی ٹیم کے رہنما اور کابینہ کے ارکان عوام کے گرتے معیار زندگی پر توجہ دیں گے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے لیے مختص رقم میں مزید 200 ارب روپے کا اضافہ کریں تاکہ غربت کی لکیر سے نیچے جانے والے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدد فراہم کی جا سکے۔ اس اضافے کے لیے وسائل موجودہ اخراجات میں کمی کر کے پیدا کیے جائیں، نہ کہ مقامی یا بین الاقوامی قرضوں سے، کیونکہ اس سے صرف پیسہ گردش میں آئے گا لیکن پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، جو کہ مہنگائی میں مزید اضافہ کر کے مزید لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے لے آئے گا۔

یہ ضروری ہے کہ تمام فریقین یہ سمجھیں کہ عوام کی پچھلے حکمرانوں کی پالیسیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے – یہ پالیسیاں آج تک جاری ہیں اور ان میں سرکاری اداروں اور یوٹیلٹی سروسز میں ناقص کارکردگی کی ذمہ داری عوام پر ڈالنا شامل ہے، جس کے نتیجے میں غریبوں پر امیروں کے مقابلے میں زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے کیونکہ 75 سے 80 فیصد آمدنی ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر انحصار کرتی ہے، اس کے علاوہ اشرافیہ کا وسائل پر تسلط بدستور قائم ہے جو موجودہ اخراجات کے بجٹ میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔

افسوس کہ آج تک توجہ امیر ٹیکس چوروں کے خلاف وقتی دھمکیوں پر مرکوز ہے، جو نوٹسز کے ذریعے کی جاتی ہیں اور پھر بھی آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ ہدف کے مقابلے میں پہلی ششماہی میں محصولات کی کمی 386 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اسٹرکچرل اصلاحات کی جائیں تاکہ عوام میں بڑھتی ہوئی نارضگی کو کم کیا جا سکے، جو حکومت کے اہم ذرائعِ آمدنی تو ہیں، مگر حکومت کے اخراجات کے اہم وصول کنندگان نہیں ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف