وزیراعظم شہباز شریف نے ٹیکس وصولی کرنے والے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے مقرر کردہ محصولات کے اہداف کو پورا کریں۔

بدھ کو کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے سرکاری عہدیداروں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اعتراف کیا کہ محصولات کی وصولی اور تفویض کردہ اہداف کے درمیان ایک ’خلا‘ موجود ہے۔

اگرچہ وصولیاں گزشتہ سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ اہداف کے مقابلے میں ایک بڑا فرق باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس فرق کو پر کرنے اور اگلے چھ ماہ کے اندر اہداف حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم کا یہ بیان فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے دسمبر 2024 میں 1373 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 1326 ارب روپے جمع کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔

مجموعی طور پر ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ (جولائی تا دسمبر) میں 6,009 ارب روپے کے مقررہ ہدف کے مقابلے میں 5,623 ارب روپے جمع کیے ہیں جس کے نتیجے میں 386 ارب روپے کا بڑا شارٹ فال ہوا ہے۔

پاکستان اس وقت واشنگٹن میں قائم قرض دہندہ کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے 37 ماہ کے قرض پروگرام کے تحت ہے۔

ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں اضافہ آئی ایم ایف کی اہم شرائط میں سے ایک ہے۔

دریں اثناء اپنی ٹیم کی معاشی کارکردگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ معیشت نے استحکام حاصل کر لیا ہے اور اب وہ ”ٹیک آف“ کی پوزیشن میں ہے۔

رواں مالی سال کے پانچ ماہ کے دوران ترسیلات زر تقریبا 15 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ اگر یہ شرح نمو برقرار رہی تو مالی سال کے اختتام تک یہ 35 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہمسایہ ملک افغانستان کو چینی کی اسمگلنگ کو کامیابی سے ناکام بنا دیا گیا ہے۔

مزید برآں، تیل کی اسمگلنگ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح رائٹ سائزنگ، ڈاؤن سائزنگ اور ای گورننس اقدامات پر بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔

وزیر اعظم نے ’اوڑان پاکستان پروگرام کے کامیاب آغاز کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام پاکستان کے معاشی استحکام میں اہم کردار ادا کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی برآمدات پر مبنی ترقی پر مبنی ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔

Comments

200 حروف