چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) راشد محمود لنگڑیال نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوذر شاد کی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ پاکستان میں سیلز ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس اور انکم ٹیکس کی شرح کافی زیادہ ہے اور اسے مثالی طور پر کم کیا جانا چاہیے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کٹوتی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ٹیکس کا نظام معیشت کے تمام شعبوں سے محصولات کو مؤثر طریقے سے حاصل کرے۔
ان خیالات کا اظہار چیئرمین ایف بی آر نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد، سینئر نائب صدر انجینئر خالد عثمان، نائب صدر شاہد نذیر چوہدری، لاہور چیمبر کے سابق صدور میاں انجم نثار اور محمد علی میاں، سابق سینئر نائب صدر علی حسام اصغر، سابق نائب صدور طاہر منظور چوہدری اور حارث عتیق نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔
راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 10.3 فیصد ہے جو مطلوبہ سطح سے کافی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب صرف 3 فیصد ہے جبکہ یہ کم از کم 5 فیصد ہونا چاہیے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ سیلز ٹیکس وصولی میں 3.1 ٹریلین روپے اور انکم ٹیکس وصولی میں 2 ٹریلین روپے کا فرق ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ پاکستان میں روزگار کے متلاشی افراد کی تعداد 6 کروڑ 70 لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والے 1 فیصد افراد، جن کا تخمینہ 670،000 افراد ہے، کو انکم ٹیکس میں نمایاں حصہ ڈالنا چاہیے۔
تاہم، صرف 200،000 افراد ٹیکس کی صحیح رقم ادا کر رہے ہیں، جبکہ بہت سے دیگر یا تو کم فائلنگ کر رہے ہیں یا اپنے منصفانہ حصے سے گریز کر رہے ہیں. اگر درست طریقے سے ٹیکس لگایا جائے تو ان افراد سے ممکنہ آمدنی 1.7 ٹریلین روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو 14 فیصد تک بڑھانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے کارکردگی بڑھانے کے لئے ٹرانسفارمیشن پلان متعارف کرایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے تعاون سے ایف بی آر میں اصلاحات اور تنظیم نو جاری ہے اور جلد ہی یہ ایک بہتر ادارے کے طور پر ابھرے گا۔
چیئرمین ایف بی آر نے نومبر میں باضابطہ درآمدات میں اضافے اور کسٹمز انفورسمنٹ ونگ کی تنظیم نو جیسے مثبت پیش رفتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں فاسٹ ٹریک کیسز کے لیے سالانہ 35 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز جاری کیے جاتے تھے لیکن صرف رواں ماہ میں 70 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے ہیں۔
لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے کہا کہ تاجر برادری ٹیکس ادا کرنے کو تیار ہے لیکن حد سے زیادہ پیچیدہ ٹیکس نظام ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے بار بار آڈٹ، ایف بی آر کی بینک اکاؤنٹس تک رسائی اور سرچارجز جیسے مسائل پر تشویش کا اظہار کیا جو کاروباری اداروں کو اپنے آپریشنز کو باضابطہ بنانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
میاں ابوذر شاد نے مالی سال 24-2023 میں ایف بی آر کی وصولیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اعداد و شمار پیش کیے جو 9,311 ارب روپے تھے۔ انہوں نے کہا کہ براہ راست ٹیکس 4 ہزار 530 ارب روپے، کسٹم ڈیوٹی 1 ہزار 104 ارب روپے، سیلز ٹیکس 3 ہزار 98 ارب روپے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 577 ارب روپے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس محصولات میں کاروباری برادری کے نمایاں کردار کے باوجود رواں مالی سال کے لیے 12 ہزار 970 ارب روپے کا ہدف غیر حقیقی دکھائی دیتا ہے۔ ان اہداف میں براہ راست ٹیکسکی مد میں 5512 ارب روپے، کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 1591 ارب روپے، سیلز ٹیکس کی مد میں 4919 ارب روپے اور ایف ای ڈی کی مد میں 948 ارب روپے شامل ہیں۔ میاں ابوذر شاد نے مزید کہا کہ ایف بی آر کو پہلے ہی 344 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔
لاہور چیمبر کے صدر نے ٹیکس نظام کو آسان بنانے اور ٹیکس نیٹ میں داخل ہونے کے فوائد کے بارے میں آگاہی کو فروغ دینے کی تجویز دی۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کاروباری اداروں کے درمیان اعتماد کو فروغ دینے اور معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے پالیسی میں مستقل مزاجی کو یقینی بنائے۔
سینئر نائب صدر انجینئر خالد عثمان نے مزید کہا کہ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب علاقائی معیشتوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments