وزارت اقتصادی امور نے عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے 50 کروڑ ڈالر سے زائد کا قرض منسوخ کرنے کی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں حقائق کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
جمعے کے روز ایک خبر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عالمی بینک نے پاکستان کو دیا جانے والا 500 ملین ڈالر سے زائد کا بجٹ سپورٹ لون منسوخ کر دیا ہے کیونکہ اسلام آباد انتظامیہ کچھ اہم شرائط پر بروقت عمل درآمد نہیں کر سکی۔
تاہم وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس خبر میں عالمی بینک کے ساتھ پاکستان کی مالی وابستگی اور ملک کے ترقیاتی پروگراموں پر اس کے اثرات کے بارے میں حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔
بیان میں مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ گیا ہے کہ ورلڈ بینک پاکستان کا سب سے بڑا کثیر الجہتی ترقیاتی شراکت دار ہے، جس کے پاکستان میں 53 فعال منصوبے ہیں جن کی مالیت 15.33 ارب ڈالر ہے۔ 1950 سے اب تک ورلڈ بینک نے پاکستان کو 46 ارب ڈالر سے زائد مالی امداد فراہم کی ہے۔
بیان کے مطابق ورلڈ بینک مختلف فنانسنگ انسٹرومنٹس کے ذریعے پاکستان کی مدد کرتا ہے جن میں انویسٹمنٹ پروجیکٹ فنانسنگ (آئی پی ایف)، پروگرام فار رزلٹ (پی ایف آر) اور ڈیولپمنٹ پالیسی فنانسنگ (ڈی پی ایف) شامل ہیں۔
عالمی بینک کا سستی اور صاف توانائی کا پروگرام (پیس) 2020 میں بجٹ سپورٹ پروگرام کے طور پر شروع کیا گیا تھا اور پیس-1 کے تحت ضروری تمام پیشگی اقدامات کامیابی سے مکمل کیے گئے تھے جن میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ ٹیرف میں ترمیم، نیشنل الیکٹریسٹی پلان کی منظوری اور سبسڈی کو معقول بنانا شامل ہے۔ وزارت کے مطابق جون 2021 میں ورلڈ بینک بورڈ نے 400 ملین ڈالر مالیت کے پیس ون کی منظوری دی تھی اور اس کے مطابق رقوم فراہم کی گئی تھیں۔
بیان کے مطابق دوسرا مرحلہ پیس ٹو کبھی شروع نہیں کیا گیا کیونکہ ورلڈ بینک کی مدد کی توجہ سرمایہ کاری کے منصوبوں پر مرکوز ہوگئی جس میں داسو ہائیڈرو پاور ڈیم کے لئے ایک ارب ڈالر کی فنانسنگ اور بجلی کے شعبے میں ڈسٹریبیوشن اور ٹرانسمیشن اصلاحات کے لئے مدد شامل ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیس ٹو کو منسوخ کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا کیونکہ یہ منصوبہ کبھی تیار ہی نہیں ہوا، لہٰذا خبر میں کیے گئے دعوے ،خاص طور پر عالمی بینک کی معاونت سے توانائی کے شعبے میں جاری اور کامیاب اصلاحات کے حوالے سے، گمراہ کن ہیں اور حقائق کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔
وزارت اقتصادی امور نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے حال ہی میں اپنی توجہ ڈی پی ایف سے آئی پی ایف پر مرکوز کر دی ہے جس کی وجہ بجلی کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کی فوری ضروریات ہیں۔
بیان کے مطابق ان میں پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانا، ٹرانسمیشن کی کارکردگی میں اضافہ اور لائن لاسز کو کم سے کم کرنا شامل ہے۔ اس کے نتیجے میں پیس ٹو پروگرام مالی سال 22، 23 یا 24 کے بجٹ تخمینوں کا حصہ نہیں تھا اور اس کا ملک کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات یا عالمی بینک کی جانب سے بجٹ سپورٹ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
Comments