فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مبینہ طور پر سیمنٹ مینوفیکچرر سے متعلق 11 ارب روپے کے مبینہ ٹیکس فراڈ کیس کی تحقیقات روک دی ہیں، جس کے بعد انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ سے اہم تفتیشی افسران کے تبادلے کیے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی جانب سے کیس میں ملوث تمام افسران کے مختلف شہروں میں تبادلے کے بعد تحقیقات، جس میں حال ہی میں مزید تین سیمنٹ کمپنیوں کو شامل کرنے کے لیے توسیع کی گئی تھی، اچانک رک گئی۔

ابتدائی طور پر اس کیس نے اس وقت زور پکڑا جب تفتیش کاروں نے تحقیقات کے تحت بنیادی ملزم سیمنٹ کمپنی سے ایک ارب روپے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس کامیابی نے ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل آڈٹ کو اپنا دائرہ کار وسیع کرنے پر مجبور کیا اور لارج ٹیکس دہندگان کے دفتر (ایل ٹی او) کراچی سے مزید تین سیمنٹ مینوفیکچررز کا آڈٹ شروع کرنے کی درخواست کی۔

مبینہ دھوکہ دہی میں ایک جدید اسکیم شامل تھی جہاں کمپنیوں نے جعلی کوئلے کی خریداری کے انوائسز کی بنیاد پر ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعوی کیا تھا۔ تحقیقات میں 12 کمپنیوں کے درمیان دھوکہ دہی کے لین دین کے ایک پیچیدہ سلسلے کا انکشاف ہوا، جن سب کو پہلے پاکستان بھر کے مختلف علاقائی ٹیکس دفاتر (آر ٹی اوز) نے بلیک لسٹ کیا تھا۔

دستاویزات میں مزید کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایف بی آر کے پورٹل پر ’فعال‘ حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپریشنز کو معتبر بنانے کے لیے ’ود ہولڈنگ ایڈجسٹمنٹ‘ اور ’جعلی کریڈٹ نوٹوں‘ کا استعمال کیا۔

26 دسمبر 2023 سے سیمنٹ مینوفیکچررز کو اپنے دعوئوں کی حمایت میں دستاویزات فراہم کرنے کے متعدد مواقع دیئے گئے ہیں، جن میں خریداری کے انوائسز، ویٹ رسیدیں، ڈلیوری چالان اور بینک ادائیگی کے ثبوت شامل ہیں۔ تاہم، وہ مطلوبہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں، خاص طور پر دستاویزات جو ان کی مینوفیکچرنگ کے عمل میں درآمد شدہ کوئلے کے استعمال کو ظاہر کرتی ہیں۔

یہ مقدمہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 73 کی خلاف ورزی کرتا ہے جس کے تحت تمام ادائیگیاں مناسب بینکنگ چینلز کے ذریعے کی جائیں گی۔ ان الزامات کی سنگین نوعیت اور تحقیقات میں ابتدائی پیش رفت کے باوجود، ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہ کیس مبینہ طور پر بغیر کسی سرکاری وضاحت کے ختم کردیا گیا ہے۔

تفتیشی افسران کے اچانک تبادلے اور تحقیقات کی معطلی نے تفتیشی عمل کی شفافیت اور ریگولیٹری معاملات میں صنعت کے طاقتور کھلاڑیوں کے اثر و رسوخ کے بارے میں سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف