محصولات کی چوری حکومت کی توجہ کا مرکز بن گئی
- حکومت محصولات کے ڈھانچے کی ڈیجیٹلائز، شفافیت اور کلائنٹ فرینڈشپ لانے اور لیکیج کو کم کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے، وزیر خزانہ
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت محصولات کی چوری ختم کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے۔
ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ گزشتہ روز اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اورنگزیب نے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور ریونیو سسٹم میں خامیوں کو روکنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت محصولات کے ڈھانچے کو ڈیجیٹلائز کرنے، شفافیت اور کلائنٹ فرینڈشپ لانے اور لیکیج کو کم کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مشروبات کے شعبے کی مثال دیتے ہوئے مختلف کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی سیلز ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کے درمیان نمایاں فرق کی نشاندہی کی۔
وزیر خزانہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ٹیکس حکام ممکنہ ٹیکس فراڈ کی نشاندہی کے لئے ڈیٹا انلالیسیس کا استعمال کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے پاس پہلے ہی کمپنیوں کی آمدنی اور سیلز ٹیکس کے اعداد و شمار موجود ہیں۔
وفاقی وزیر نے ایک بار پھر مشروبات کے شعبے کی مثال دی جہاں مختلف کمپنیوں کی جانب سے کیے جانے والے سیلز ٹیکس ایڈجسٹمنٹ میں نمایاں فرق تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مشروبات کے شعبے میں کوکا کولا کمپنی کی جانب سے بینچ مارک ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کی شرح 7 فیصد مقرر کی گئی ہے تاہم دیگر کمپنیوں نے 20 فیصد تک کا دعویٰ کیا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے ایف بی آر کی جانب سے 16 کیسز کے مطالعے سے بھی آگاہ کیا جو کہ مشروبات کی کل فروخت کا 99 فیصد ہے جس سے انکشاف ہوا ہے کہ ان میں سے کچھ کیسز میں مالی سال (24-2023) میں اس شعبے کے صنعتی بینچ مارک کے مقابلے میں 15 ارب روپے کی اضافی ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ ایف بی آر کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جعلی اور مشکوک ان پٹ ٹیکس کا سب سے بڑا ذریعہ چینی، پلاسٹک اور خدمات کی خریداری پر دعویٰ کیا جاتا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments