بینکنگ سیکٹر کا مجموعی ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو (اے ڈی آر) 15 نومبر 2024 تک 47 فیصد تک پہنچ گیا۔
مطلوبہ اے ڈی آر سے کم ہونے کی وجہ سے اضافی ٹیکسز سے بچنے کی کوشش میں بینک صارفین کو قرضوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس جارحانہ حکمت عملی کے نتیجے میں پیشرفت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ہفتہ وار اعداد و شمار کے مطابق بینکنگ سیکٹر کا مجموعی اے ڈی آر تناسب 15 نومبر 2024 تک 47 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ 27 ستمبر 2024 کو یہ 39 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2024 کے پہلے دو ہفتوں کے دوران بینکنگ سیکٹر کے مجموعی قرضوں میں 4 فیصد اضافہ ہوا جو 13.816 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 14.419 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔
اس کے برعکس اس شعبے کے ڈپازٹس میں 47 ارب روپے کی کمی دیکھی گئی جو نومبر کے دوسرے ہفتے تک کم ہو کر 30.744 کھرب روپے رہ گئی جو اکتوبر 2024 کے اختتام پر 30.791 ٹریلین روپے تھی۔
موجودہ رفتار سے تجزیہ کار توقع کر رہے ہیں کہ اضافی ٹیکس سے بچنے کے لئے بینکوں کے دسمبر 2024 کے آخر تک 50 فیصد اے ڈی آر تناسب حاصل کرنے کا امکان ہے۔
وفاقی حکومت نے 31 دسمبر 2024 تک اے ڈی آر 50 فیصد سے کم رہنے کی صورت میں بینکوں پر 15 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک سال کی تاخیر کے بعد اب اضافی ٹیکس رواں مالی سال کے دوران نافذ العمل ہوگا۔
لہٰذا اس اضافی ٹیکس سے بچنے اور زیادہ منافع برقرار رکھنے کے لیے بینک 50 فیصد اے ڈی آر ہدف کے حصول کے لیے جارحانہ انداز میں نجی شعبے کو قرضے دے رہے ہیں اور بڑے ڈپازٹس کی حوصلہ شکنی کے لیے کچھ اقدامات کا اعلان کر رہے ہیں۔
نومبر کے پہلے ہفتے میں حکومت کی جانب سے عائد کیے جانے والے ممکنہ ٹیکس سے بچنے کے لیے کچھ کمرشل بینکوں نے ماہ کے آخری دن ایک ارب سے پانچ ارب روپے تک کے ڈپازٹس/بیلنس والے اکاؤنٹس کی چیکنگ پر 5 سے 6 فیصد ماہانہ فیس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد بڑے ڈپازٹس کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔
بعد ازاں اس فیس کو واپس لے لیا گیا کیونکہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو کچھ رعایتیں دی تھیں اور باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ مالیاتی اداروں، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز اور پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے ڈپازٹس پر کم از کم شرح منافع کی شرط کا اطلاق نہیں ہوگا۔
اب روایتی بینکوں کو ان شعبوں یا بڑے ڈپازٹرز کو صحت مند منافع کی شرح ادا کرنے یا پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اسلامی بینکاری کی صنعت اب بھی اس حوالے سے ریلیف کا انتظار کر رہی ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments