وزیراعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کے تعاون اور مدد سے سیکیورٹی اداروں نے اسلام آباد میں انتشار کے خاتمے کے لیے بہترین حکمت عملی استعمال کی۔

جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان کے حامیوں کو بڑے پیمانے پر آپریشن کے ذریعے اسلام آباد سے منتشر کرنے کے ایک روز بعد وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت آرمی چیف یک جان دو قالب کی طرح ہمارے ساتھ ہیں اور ہم دوبارہ اس طرح کے کسی احتجاج کی اجازت نہیں دیں گے۔

وزیر اعظم کے اس دعوے نے کہ ایک طاقتور آرمی چیف – جو اس طرح کے معاملات میں غیر جانبدار کردار ادا کرتے ہیں – نے ان کی حکومت کو پی ٹی آئی کے دھرنے کو ختم کرنے میں مدد کی ، پی ٹی آئی کے اس الزام کو تقویت ملی ہے کہ فوج نے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے مینڈیٹ کو چوری کرنے کا کام کیا تھا۔

شہباز شریف نے وفاقی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو احتجاج کی سیاست سے چھٹکارا دلانے اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ملک کو بچائیں گے یا دھرنوں کی اجازت دیں گے، اس سے قبل کسی نے اسلام آباد پر حملے کا سوچا بھی نہیں تھا اور وقت کی ضرورت ہے کہ مشکل فیصلے باہمی مشاورت سے کیے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس دو آپشنز موجود ہیں اور یہ واضح ہے کہ ہمیں ترقی اور خوشحالی کا انتخاب کرنا چاہیے‘، انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں آج فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان فسادیوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔

پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے ملک کو درپیش معاشی نقصان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کاروبار بند ہیں جبکہ مزدور اور دکاندار شکایت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’اسٹاک ایکسچینج، جو 99,000 سے تجاوز کر گئی تھی، کو فسادات کی وجہ سے منگل کو 4،000 پوائنٹس سے زیادہ کی گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا… معیشت کو روزانہ 190 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے سب سے زیادہ بولنے والے ناقدین بھی اب معیشت میں پیش رفت کا اعتراف کر رہے ہیں اور اسے ”کسی معجزے سے کم نہیں“ قرار دے رہے ہیں۔

انہوں نے سول ملٹری قیادت کے درمیان تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “معیشت بحال ہو رہی ہے، اور اہم شخصیات ملک کی بھلائی کے لئے مل کر کام کر رہی ہیں۔

شہباز شریف نے حزب اختلاف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، خاص طور پر ان لوگوں کو جنہوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ انتخابات میں دھاندلی کا شور مچاتے ہیں انہیں پہلے 2018 میں دھاندلی کا جواب دینا چاہیے۔

’’احتجاج نے معمول کی زندگی کو مکمل طور پر روک دیا ہے اور بہت سے لوگ اپنے کنبوں کا پیٹ بھرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسپتالوں کو مریضوں کے علاج میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ آئی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ کس طرح انہی فسادیوں یعنی پی ٹی آئی کے مظاہرین نے 2014 کے دھرنے کے دوران 126 دن تک تشدد کیا تھا، جو چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے موقع پر ہوا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جن کی وجہ سے شی جن پنگ کا دورہ پاکستان ملتوی ہوا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہی فسادیوں نے حال ہی میں دارالحکومت میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سربراہ اجلاس کے دوران افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی، جس سے مہمانوں میں الجھن پیدا ہوئی کہ وہ پاکستان کا دورہ کریں یا نہیں۔

بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے دورہ پاکستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک اگلے سال جنوری میں مزید معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

شہباز شریف نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگر عدالتوں نے 9 مئی 2023 کے پرتشدد مظاہروں کے مجرموں کو مثالی سزا دی ہوتی تو ہمیں یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمیں کس راستے پر چلنا چاہیے۔

شہباز شریف نے کہا کہ کرم جھڑپوں میں سیکڑوں افراد مارے گئے اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی عروج پر ہے لیکن پی ٹی آئی نے کرم کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی تحریک نہیں بلکہ بغاوت ہے اور سیاست میں بغاوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ ایک سازش ہے اور اسے ہر قیمت پر ختم کیا جانا چاہیے۔

وزیر اعظم نے ایک دوست ملک کے ساتھ تعلقات میں حالیہ تناؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے اتحادیوں کے خلاف کارروائیوں کو ”دشمنی کی کارروائی“ قرار دیا۔ ہمیں اپنے اقدامات اور ان کے طویل مدتی نتائج کا جائزہ لینا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے فیصلے کیے جائیں جن میں پاکستان کے قومی مفاد کو ترجیح دی جائے۔

جذباتی نظر آنے والے وزیر اعظم نے کہا کہ “جو ہاتھ پاکستان کو قربان کرنا چاہتا ہے اسے توڑ دیا جائے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف