پاکستان کے بجٹ سازی کا عمل، جسے 1973 کے آئین میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ (پی ایف ایم اے) 2019 جیسے ماتحت قانون سازی اور تفصیلی مینوئل جیسے بجٹ مینوئل 2020 کی رہنمائی میں متعدد اسٹریٹجک اور طریقہ کار کی نااہلیوں کا سامنا کررہا ہے جو مالی استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

بہترین انداز میں مرتب فریم ورک کی موجودگی کے باوجود بجٹ سازی کا طریقہ کار زیادہ تر ردعمل پر مبنی رہتا ہے اور اس میں اسٹریٹجک فیصلہ سازی کا فقدان ہے۔ موجودہ طریقہ کار میں نیچے سے اوپر تک بجٹ سازی کا عمل شامل ہے جو زیادہ تر پرانی مالی پیش گوئیوں اور وسائل کی حدوں پر انحصار کرتا ہے اور اکثر اقتصادی اتار چڑھاؤ اور ابھرتے ہوئے مالی دباؤ کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بجٹ کی تجاویز مستقبل کی پیشگوئیوں کے بجائے ماضی کے اعداد و شمار پر مبنی ہوتی ہیں جس سے اقتصادی کمزوریاں بڑھتی ہیں اور مالی ترجیحات میں بے ترتیبی پیدا ہوتی ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ’ٹیکنیکل اسسٹنس رپورٹ پاکستان-اپمروونگ بجٹ پریکٹسز‘ (اگست 2024) میں ایک واضح کمزوری کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ بجٹ کی تیاری اور میکرو فیسکلی ڈیٹا کی بروقت فراہمی کے درمیان تعلق کی کمی ہے۔۔ مڈ-ٹرم بجٹ اسٹریٹیجی پیپر، جس میں اہم پیش گوئیاں اور مالی پالیساں شامل ہوتی ہیں، صرف تین ماہ بعد جاری کیا جاتا ہے جب بجٹ کی تیاری شروع ہو چکی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں اقتصادی حالات کے ساتھ ہم آہنگی میں کمی واقع ہوتی ہے۔

حکمت عملی کی منصوبہ بندی میں تاخیر نہ صرف بجٹ کی مختص کردہ رقم کی درستگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ وفاقی حکومت کی باخبر فیصلے کرنے کی صلاحیت پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ بجٹ ونگ اور میکرو-فیسکلی پالیسی یونٹ (ایم ایف پی یو) کے درمیان ہم آہنگی کی کمی حقیقی وقت میں اعداد و شمار کو مربوط کرنے میں رکاؤٹ ڈالتی ہے جس سے اقتصادی پیش گوئیوں کی مؤثر کارروائی محدود ہو جاتی ہے۔ وزارتوں کے درمیان مؤثر باہمی تعاون کو یقینی بنانے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ وزارتیں عموماً علیحدہ علیحدہ کام کرتی ہیں، بجائے اس کے کہ وہ ایک مربوط مالیاتی مقاصد کے تحت کام کریں، جس سے بجٹ پر عملدرآمد مزید کمزور ہو ہوجاتا ہے۔

آئین (آٹھویں ترمیم) ایکٹ 2010 [18ویں ترمیم] کے تحت صوبوں کو دی جانے والی خود مختاری اور کئی ترقی پسند ٹیکسز لگانے کے حق کے نتیجے میں ہر سال قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ صوبائی حکومتوں کو مختص کیا جاتا ہے۔ اس مختص کردہ رقم کے باعث وفاقی حکومت کے پاس مالی وسائل کی کمی ہوتی ہے جو ضروری اخراجات بشمول دفاعی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وفاق کو بڑے مالی دباؤ، زیادہ قرضوں اور محدود مالی لچک کا سامنا ہے جو اس بات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ ایک زیادہ متوازن اور پائیدار آمدنی کی تقسیم کا فریم ورک تیار کیا جائے۔

1973 کے آئین کے مطابق زرعی انکم ٹیکس لگانے اور امیر طبقے پر وراثت ٹیکس (اسٹیٹ ڈیوٹی)، گفٹ ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور کیپٹل گین ٹیکس جیسے ترقی پسند ٹیکس لگانے کے بجائے چاروں صوبوں نے مالی سال 2023-24 میں مجموعی طور پر 7 ویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت وفاقی حکومت سے 5264 ارب روپے وصول کیے۔

مالی سال 2024 میں ملک کی کل ٹیکس وصولی میں تمام صوبوں کی جانب سے زرعی انکم ٹیکس کی مد میں وصولی صرف 0.3 فیصد تھی!

گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں صوبائی حکومتوں نے اپنی ٹیکس وصولی کو منظم کرنے میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو ان کی معاشی صلاحیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگرچہ وہ سیاسی فائدے کے لئے منصوبے شروع کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ٹیکس دہندگان کے پیسے اور قلیل مدتی فنڈنگ کی بدانتظامی کے نتیجے میں بہت سے منصوبے بند ہوگئے ہیں یا ان پر بے شمار اضافی اخراجات ہوئے۔ اس کے حقیقی متاثرین عوام ہیں کیونکہ کوئی قابلِ قدر سماجی فلاحی پروگرام نافذ نہیں کیا گیا اور آئین کے آرٹیکل 140 اے میں مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے میں مکمل بے حسی دیکھنے کو ملی۔

پنجاب میں اگرچہ مالی سال 2014-15 میں ٹیکس وصولی 98,054 ملین روپے سے بڑھ کر مالی سال 2023-24 میں 326,282 ملین روپے ہوگئی، لیکن یہ خدمات پر سیلز ٹیکس کے ذریعے نمایاں طور پر بڑھ گیا جو 2015-16 میں 58,662 ملین روپے سے بڑھ کر مالی سال 2023-24 میں 224,440 ملین روپے ہو گیا۔

تاہم پراپرٹی ٹیکس میں مالی سال 2014-15 میں 7,812 ملین روپے سے کم ہوکر مالی سال 2019-20 میں 6,335 ملین روپے ہوگیا۔ اس ٹیکس کا مالی سال 2020-21 کی وزارت خزانہ کی رپورٹوں میں علیحدہ طور پر ذکر نہیں کیا گیا اور ”دیگر“ کے تحت ضم کر دیا گیا جس کی مجموعی وصولی مالی سال 2023-24 میں 35,504 ملین روپے رہی۔ اسی طرح ایکسائز ڈیوٹیز اور اسٹامپ ڈیوٹیز میں درمیانہ اضافہ ہوا جو بالترتیب مالی سال 2023-24 میں 4,058 ملین روپے اور 41,793 ملین روپے تک پہنچ گئے۔

سندھ میں کل ٹیکس کی وصولی مالی سال 2014-15 میں 93,807 ملین روپے سے بڑھ کر مالی سال 2023-24 میں 363,733 ملین روپے ہوگئی جس میں سیلز ٹیکس آن سروسز کی وصولی صفر سے بڑھ کر 222,750 ملین روپے ہوگئی۔ پراپرٹی ٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور ایکسائز ڈیوٹیز مالی سال 2014-15 میں 3,820 ملین روپے سے بڑھ کر 7,004 ملین روپے ہوگئیں۔

اسٹامپ ڈیوٹی 6550 ملین روپے سے بڑھ کر 17122 ملین روپے ہوگئی۔ خیبر پختونخوا میں ٹیکس وصولی مالی سال 2014-15 میں 11,369 ملین روپے سے بڑھ کر مالی سال 2023-24 میں 53,787 ملین روپے ہوگئی، خدمات پر سیلز ٹیکس 35,911 ملین روپے تک پہنچ گیا۔ تاہم پراپرٹی ٹیکسوں میں اتار چڑھاؤ رہا اور ایکسائز ڈیوٹی معمولی رہی۔

بلوچستان میں ٹیکس وصولی مالی سال 2014-15 میں 2,593 ملین روپے سے بڑھ کر مالی سال 2023-24 میں 30,392 ملین روپے ہوگئی، سروس پر سیلز ٹیکس صفر سے بڑھ کر 21,516 ملین روپے ہو گیا۔ اگرچہ بہتری قابل ستائش ہے لیکن وصولی اب بھی صوبے کی اقتصادی صلاحیت سے کم ہے۔ ٹیکسوں کی محدود رینج پر انحصار، خاص طور پر سیلز ٹیکس، صوبوں بھر میں ٹیکس نظام میں نااہلیت کی نشاندہی کرتا ہے جس میں یہ سب اپنی معاشی صلاحیت کے مقابلے میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

مالی سال 2024-25 کے لیے مقرر کردہ اہداف کے باوجود پنجاب کی موجودہ حکومت کی معاشی اور انتظامی ذمہ داریوں کے انتظام میں کارکردگی تشویش کا باعث رہی ہے۔ صوبائی محصولات کا ہدف 960.3 ارب روپے ہے جس میں 471.9 ارب روپے ٹیکسوں اور 488.4 ارب روپے نان ٹیکس ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں جسے موجودہ 128 ملین آبادی والی مالیاتی صلاحیت کو بڑھانے کی جرات مندانہ کوشش قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم مالی سال کے ابتدائی اشارے نے ان اہداف کی افادیت کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔

پنجاب حکومت نے پہلی سہ ماہی میں 160 ارب روپے کا خسارہ ظاہر کیا تھا جسے بعد میں 40 ارب روپے کے سرپلس میں تبدیل کر دیا گیا۔ اگرچہ یہ ایک بہتری نظر آتی ہے لیکن نظر ثانی شدہ اعداد و شمار میں 177 ارب روپے کے خطرناک حد تک زیادہ اعداد و شمار کے تضاد کو نوٹ کرنا ضروری ہے جو پنجاب حکومت کی جانب سے درست اور قابل اعتماد مالی معلومات پیدا کرنے میں مسلسل ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس طرح کے تضادات کی مسلسل موجودگی صوبے کے مالیاتی انتظام میں ایک بنیادی کمزوری کی نشاندہی کرتی ہے جو حکومت کی طویل مدتی محصولات کے اہداف کو پورا کرنے کی صلاحیت کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہے۔

پنجاب حکومت کو امن و امان کے ناقص انتظام کے ساتھ بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ طلباء کے احتجاج کو کنٹرول کرنے میں ناکامی دیکھنے میں آئی اور یہ پرتشدد واقعات میں تبدیل ہوگئے۔ اس معاملے انتظامی اہلیت کے فقدان کو اجاگر کیا۔ اسموگ اور ڈینگی جیسے صحت کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کا ردعمل ناکافی ہے، لاک ڈاؤن جیسے رد عمل کے اقدامات اور فصلوں کو جلانے سے نمٹنے یا ماحول دوست اقدامات کو فروغ دینے جیسے طویل مدتی حل نہیں ہیں۔

مزید برآں حکومت نے ان بار بار آنے والے مسائل سے نمٹنے میں تیاری اور دور اندیشی کا فقدان ظاہر کیا ہے۔ پرجوش مالیاتی اہداف کے باوجود حکومت کا قلیل مدتی حل پر انحصار، وفاقی وصولیوں پر بہت زیادہ انحصار اور قابل اعتماد مالیاتی اعداد و شمار پیدا کرنے میں اس کی نااہلی عوامی اعتماد کو مؤثر طریقے سے چلانے اور برقرار رکھنے کی اس کی صلاحیت کو کمزور کرتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی کو سیاسی شخصیات کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، خاص طور پر این ایف سی ایوارڈ کے تحت مختص 1200 ارب روپے کے انتظام کے حوالے سے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اس رقم کے استعمال کے بارے میں شفافیت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے اس کے مؤثر ہونے اور احتساب پر سوالات اٹھرہے ہیں۔ مزید برآں، پی ٹی آئی کی حکومت، جو کبھی خود کو صوبائی حقوق کی وکالت کرنے والی حکومت کے طور پر پیش کرتی تھی، نے وفاقی سطح پر اقتدار سنبھالنے کے دوران ان حقوق کے حصول کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے، جس سے اس معاملے پر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔

سندھ کی کارکردگی نے آئی ایم ایف میں تشویش پیدا کی ہے، خاص طور پر اس کی قومی مالیاتی معاہدے کو نافذ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے، حالانکہ اس پر بات چیت کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں مالیاتی احتساب کو نقصان پہنچا۔ اس طرح اپنے وسیع وسائل اور اسٹریٹجک مقام کے باوجود بلوچستان کو اپنے حکومتی انتظامات کے تحت نمایاں چیلنجز کا سامنا ہے جن میں قانون و نظم کی فرسود صورتحال اور وسیع پیمانے پر ناخواندگی شامل ہیں۔

بدانتظامی اور موثر گورننس کے فقدان نے صوبے کی معاشی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ اس کی مالی صلاحیت اور جغرافیائی فوائد کو بروئے کار لانے میں ناکامی نے لوگوں کو پسماندہ بنا دیا ہے اور وہ اپنی حیثیت اور وسائل سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔

چیلنجز بڑے ہیں اور وفاقی حکومت اکیلے ان کا مؤثر طور پر مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قلیل مدتی سیاسی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے صوبائی حکومتوں کو طویل مدتی ساختی اصلاحات کو ترجیح دینی چاہیے جو پائیدار کیش فلو قائم کرنے، ڈیجیٹائزیشن کو اپنانے اور تمام شعبوں میں نقصانات کو روکنے پر مرکوز ہوں۔

مزید برآں جیسا کہ آئی ایم ایف کی تکنیکی معاونت کی رپورٹ میں پاکستان میں بجٹ کے طریقوں کو بہتر بنانے کے بارے میں بتایا گیا ہے وفاقی حکومت کو ایک زیادہ اسٹریٹجک، اوپر سے نیچے تک بجٹ سازی کے طریقے کو اپنانا چاہیے جس میں پالیسی کی ہم آہنگی اور ڈیٹا پر مبنی فیصلے کرنے کی اہمیت دی جائے۔ ایک اہم تجویز یہ ہے کہ بجٹ اسٹریٹیجی پیپر کو بجٹ کال سرکولر کے ساتھ ساتھ جاری کیا جائے تاکہ جدید میکرو فیسکلی پیش گوئیوں کو شامل کیا جا سکے اور بجٹ کی حدود قائم کی جا سکیں۔ اس سے وزارتوں کو واضح وسائل کی فراہمی ہوگی اور بجٹ کی تجاویز میں نظم و ضبط کو فروغ ملے گا۔

بجٹ ونگ اور ایم ایف پی یو کے درمیان کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانا، ڈیٹا ایکسچینج پروٹوکول میں اضافہ اور مالی پیشگوئیوں کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرنا بھی اہم اقدامات ہیں۔ مزید برآں ترقیاتی منصوبوں کے مذاکرات میں بجٹ ونگ کی شمولیت میں اضافے سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ سرمائے کے اخراجات قومی ترجیحات اور مالی حقائق کے مطابق ہوں۔

بجٹ کال سرکلر کے دائرہ کار میں بہترین بین الاقوامی طریقوں کو شامل کرنے اور اسے پلاننگ ڈویژن کے ساتھ مشترکہ طور پر جاری کرنے سے زیادہ جامع بجٹ فریم ورک تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مالیاتی گورننس کو مضبوط بنانے کے لئے فنانس ڈویژن کے اندر تنظیمی اصلاحات تقسیم کو کم کرنے اور فیصلہ سازی کو بہتر بنانے کے لئے اہم ہیں۔ یہ تزویراتی اصلاحات ایک لچکدار، شفاف بجٹ نظام کی تعمیر کے لئے بنیادی ہیں جو پائیدار اقتصادی ترقی کی حمایت کرتا ہے۔

Comments

200 حروف