پاکستان کا ماہی گیری کا شعبہ طویل عرصے سے دیگر صنعتوں کے زیر اثر رہا ہے اور یہ ایک چھپی ہوئی دولت ہے جسے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ 1,050 کلومیٹر سے زائد ساحلی پٹی اور وسیع داخلی آبی وسائل کے ساتھ ملک کے پاس عالمی ماہی گیری کے بازاروں میں اہم کردار بننے کے لیے قدرتی وسائل موجود ہیں۔
تاہم زمینی حقائق مختلف صورتحال بیان کرتے ہیں۔ جب کہ یہ شعبہ ہر سال 534 ملین ڈالر سے زیادہ کی برآمدی آمدنی پیدا کرتا ہے اور سندھ اور بلوچستان میں ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے یہ پھر بھی کم استعمال اور غیر منظم ہے۔
چیلنجز جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، زیادہ ماہی گیری اور ریگولیٹری خامیاں اس کی ترقی کو روک رہی ہیں جس کے باعث پاکستان اپنے علاقائی حریفوں جیسے بھارت اور بنگلہ دیش سے پیچھے رہ گیا ہے۔ فوری اصلاحات کے بغیر یہ شعبہ مزید زوال کا شکار ہو سکتا ہے جو ماہی گیر کمیونٹیز کا روزگار خطرے میں ڈال دے گا اور ملک کے تجارتی خسارے کو بڑھا دے گا۔ ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ پاکستان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ شعبہ اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ماہی گیری کے شعبے کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے ہر ایک دوسرے کو بڑھا رہا ہے۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے جو داخلی اور سمندری ماحولیاتی نظام دونوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
مثال کے طور پر سندھ میں منچھر جھیل، جو کبھی مچھلی کی پیداوار اور تجارت کا ایک اہم مرکز تھا اور یہاں مچھلی کی تقریباً 200 اقسام پیدا کی جاتی تھیں تاہم یہ تجارت اب زوال کا شکار ہے۔ آلودگی اور جھیل کے پانی کے اندر بڑی مقدار میں کائی جمع ہونے سے پانی کی تہہ تک آکسیجن نہیں پہنچ پارہی جس کے نتیجے میں مچھلیوں کی تعداد کم ہوگئی ہے جبکہ بڑھتے درجہ حرارت اور دریائے سندھ سے پانی کی روانی میں کمی نے جھیل کی حیاتیاتی تنوع کو تبادہ کردیا ہے اور یہ عوامل ماہی گیروں کیلئے معاشی اعتبار سے مایوس کن ثابت ہوئی ہیں۔
سمندری ماہی گیری کی صورتحال بھی بہتر نہیں ہے۔ زیادہ مچھلی پکڑنا اور ممنوعہ جالوں کا غیر قانونی استعمال بحیرہ عرب میں مچھلی کے ذخائر کم کر چکا ہے۔ شہر کے نکاسی کے نظام کے ذریعے آلودہ مادے ساحلی ماحولیاتی نظام کو زہر آلود کر دیتے ہیں جس سے مچھلیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ برآمد کنندگان کے لیے کاروباری ماحول میں اہم رکاوٹیں ہیں۔ ایندھن کی زیادہ قیمتیں کولڈ اسٹوریج کی ناکافی سہولیات لاگت بڑھا دیتی ہیں اور سرمایہ کاروں، خاص طور پر برآمد کنندگان کے لیے منافع کے مارجن کو گھٹاتی ہیں۔
اس کے ساتھ پیچیدہ ریگولیٹری فریم ورک جس میں ہر سمندری مصنوعات کے لئے متعدد لائسنسوں کی ضرورت ہوتی ہے چھوٹے پیمانے پر برآمد کنندگان کی ترقی کو اور سرمایہ کاری کو روکتا ہے۔ سمندری ماہی گیری کی طرح داخلی مچھلی کی فارمنگ بھی اس شعبے کا ایک اہم جزو ہے اور اسے اپنے مخصوص چیلنجز کا سامنا ہے۔
فارمرز کا کہنا ہے کہ انہیں انتہائی زیادہ لاگت کا سامنا ہے جن میں ایندھن، خوراک، بیج اور مزدوری کے اخراجات شامل ہیں، جو اکثر 400,000 روپے فی ایکڑ سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ پانی کی کمی اور درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ اس غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے آبی زراعت چھوٹے آپریٹرز کے لیے ایسا کاروبار بن جاتا ہے جس میں خطرات کی بھرمار ہو۔
ان چیلنجز کے باوجود اس شعبے میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان کا ساحلی جغرافیہ چین، مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں منافع بخش بازاروں کے قریب ہونے کا فائدہ پیش کرتا ہے۔ تاہم بھارت اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی حریفوں کے برعکس پاکستان یہ فوائد سمیٹنے میں ناکام رہا۔
مثال کے طور پر بھارت میں آبی زراعت کے فروغ کیلئے حکومت نے اقدامات کیے ہیں جس کا اس شعبے کو فائدہ ہوا ہے اور اب بھارت دنیا بھر میں جھینگے کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش نے بھی پائیدار طریقوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور ماہی گیری کی اصلاحات کے لیے اسے عالمی سطح پر شناخت ملی ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کا ماہی گیری کا شعبہ اب بھی غیر ترقی یافتہ ہے۔ اس میں عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لئے ضروری بنیادی ڈھانچے اور پالیسی کی حمایت کا فقدان ہے۔
مثال کے طور پر جہاں ویتنام جیسے ممالک نے فصل کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے اپنی کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کو جدید بنایا ہے وہیں پاکستان فرسودہ ٹیکنالوجی اور بار بار بجلی کی بندش سے نبرد آزما ہے۔ اسی طرح، تحقیق اور ترقی میں محدود سرمایہ کاری کے سبب یہ شعبہ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے یا فارمنگ کی جدید تکنیک کو اپنانے کے لئے تیار نہیں کیا۔
پاکستان کے ماہی گیری کے شعبے کی بحالی کے لئے کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں طویل مدتی حکمت عملی کے ساتھ فوری مداخلت کو متوازن کیا جائے۔ یہاں کچھ قابل عمل اقدامات ہیں جو حکومت اور نجی اسٹیک ہولڈرز اٹھا سکتے ہیں۔
برآمد کنندگان کو جس بیوروکریٹک مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ترقی میں اہم رکاوٹ ہے۔ لائسنسنگ کی ضروریات کو سنگل ونڈو سسٹم میں ضم کرنے سے وقت بچایا جاسکتا ہے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ مزید برآں غیر قانونی ماہی گیری کے طریقوں جیسے ممنوعہ جالوں کے استعمال کے خلاف سخت نفاذ سے مچھلیوں کے ذخیرے کو بحال کرنے اور سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں مدد ملے گی۔
مزید برآں کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کی کمی گھریلو اور برآمدی مارکیٹوں دونوں کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسٹوریج اور نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے سے فصل کی کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے جس سے فارمرز اور برآمد کنندگان کے لئے یکساں طور پر بہتر منافع کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
ان سہولیات کے لئے سبسڈی شدہ بجلی کے نرخ اعلی آپریٹنگ اخراجات کے بوجھ کو مزید کم کرسکتے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے حکومت کو آب و ہوا سے مطابقت رکھنے والے طریقوں کی تحقیق میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ اس میں زیادہ پیداوار، درجہ حرارت کے خلاف مزاحمت کرنے والی مچھلی کی نسلوں کو تیار کرنا اور بائیوفلوک جیسی جدید تکنیکوں کو فروغ دینا شامل ہے جو پانی کی کمی والے شہری علاقوں میں مؤثر طریقے سے مچھلی کی فارمنگ کو ممکن بناتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، بھارت اور بنگلہ دیش سے سبق لیتے ہوئے، پاکستان پائیدار آبی زراعت کے لیے ہدفی مراعات متعارف کرا سکتا ہے۔ اس میں ماحول دوست ماہی گیری کے طریقوں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اور جھینگے اور لابسٹر جیسی قیمتی برآمدات کے لیے سبسڈیز شامل ہیں۔
اس کے علاوہ علاقائی شراکت داریوں کو فروغ دینے سے معلومات کے تبادلے اور مشترکہ منصوبوں کو سہولت فراہم کی جا سکتی ہے جو پاکستان کی عالمی منڈیوں میں حیثیت کو مزید مضبوط کرے گا۔ اسی طرح ڈیجیٹل معیشت کے حوالے سے پاکستان کے ماہی گیری کے شعبے کو وسعت دینے کے لیے بے پناہ امکانات ہیں۔ ای کامرس پلیٹ فارمز مچھلی کے فارمرز کو براہ راست صارفین اور برآمد کنندگان سے جوڑ سکتے ہیں جس سے ماشہ خوروں کا خاتمہ ہوتا ہے اور منافع کے مارجن میں بہتری آتی ہے۔ داخلی اور بین الاقوامی مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں کو بہتر بنا کر اس شعبے کو نمایاں اور منافع کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے ماہی گیری کے شعبے کو درپیش چیلنجز بڑے ہیں تاہم اس کی نوعیت اس طرح کی نہیں کہ اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کیلئے ہم آہنگی کے ساتھ مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی جس کا مقصد نظامی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ ابھرتے مواقع سے فائدہ اٹھانا ہے۔ پالیسی سازوں کو یہ سمجھتے ہوئے کہ ماحولیاتی صحت اور اقتصادی ترقی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں پائیدار طریقوں کو ترجیح دینی چاہیے۔
یہ صرف اقتصادیات کا معاملہ نہیں بلکہ سماجی انصاف کا بھی ہے۔ ماہی گیری کے شعبے کی بحالی پورے کمیونٹیز کو بہتر بنا سکتی ہے، غربت کو کم کر سکتی ہے اور خوشحالی کے راستے سامنے لاسکتی ہے۔
اسی دوران برآمد کنندگان اور فارمرز کو جدت یعنی جدید تکنیکیں اختیار کرنا ہوں گے جس سے نہ صرف کارکردگی میں اضافہ ہو بلکہ فضلے کا بھی خاتمہ ہو۔ حکومت اور نجی شعبے کے درمیان تعاون اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے کہ یہ تبدیلی ویلیو چین میں موجود ہر فرد کے فائدے میں ہو، چاہے وہ دیہی سندھ کے ماہی گیر ہوں یا بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلہ کرنے والے برآمد کنندگان ہوں۔
درست پالیسیوں اور سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان اپنے ماہی گیری کے شعبے کو ایک پھلتی پھولتی، پائیدار صنعت میں تبدیل کر سکتا ہے جو معاشی لچک اور غذائی تحفظ دونوں میں کردار ادا کرتا ہے۔ ماہی گیری کا شعبہ ساحلی برادریوں کے لئے آمدنی کے ذریعہ سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک اہم قومی اثاثہ ہے۔ اسے بچانے کے لئے وژن، عزم اور سب سے بڑھ کر عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔
Comments