پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے وی پی این کی بندش اور انٹرنیٹ کی رفتار محدود کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ ہم سے انٹرنیٹ کی رفتار کم کرنے اور وی پی این کی بندش کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ فیصلہ ساز وی پی این کی اے بی سی کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سے وی پی این پر مشورہ کیا گیا تو اسے نئے قوانین کے بارے میں وضاحت کرنی چاہیے۔

بلاول کا کہنا تھا کہ ’اب انٹرنیٹ کی رفتار کا دور ہے، حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ عوام کو فور جی سروس فراہم کر رہی ہے لیکن انٹرنیٹ کی رفتار کم ہے لگتا ہے صرف تھری جی انٹرنیٹ سروس فراہم کی جارہی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب انٹرنیٹ کی رفتار مزید کم کر دی گئی ہے۔

پاکستان حکومت نے انٹرنیٹ خدمات میں خلل کے درمیان وی پی این رجسٹریشن شروع کر دی۔

ٹرمپ کی جیت اور پاکستان میں امریکی مفادات کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ کی اپنی سیاست ہے۔ پاکستان امریکی سیاست میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کو پسند نہیں کرتا۔

بلاول نے کہا کہ میں ٹرمپ کے داماد اور بیٹی کو جانتا ہوں، بے نظیر شہید کو بھی ٹرمپ نے ڈنر پر بلایا تھا۔ آصف زرداری صدر بننے سے پہلے ٹرمپ کو جانتے ہیں۔ پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ سفارت کاری میں ذاتی تعلقات محدود اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ جغرافیائی سیاست کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’پاک امریکا تعلقات بالکل بھی اچھے نہیں ہیں، اس وقت امریکا سے تعلقات خراب ہیں‘۔

بلاول نے کہا کہ ن لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے، پی ایس ڈی پی باہمی مشاورت کے بعد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ جب وہ 26ویں ترمیم کے بل میں مصروف تھے تو وفاقی حکومت نے نہروں کے معاہدے کی منظوری دی۔

انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی نئی کینال سکیم سے اتفاق نہیں کرتی۔ بلاول نے کہا کہ حکومت نے جس طرح نہروں پر ایکشن کیا وہ ٹھیک نہیں تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ قانون سازی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے مکمل مشاورت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں ناراضگی نہیں ہوتی اور حکومت سے ناراضگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اپنے اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جو اس نے 26ویں آئینی ترامیم کی منظوری سے قبل صوبوں کو واجب الادا حصہ دینے کے حوالے سے کیا تھا اسی لیے انہوں نے جوڈیشل کمیشن سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر وہ جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہوتے تو اس معاملے پر ضرور بات کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت دیہی سندھ کے ججوں کو آئینی بنچ میں شامل کرتی تو یہ بجا طور پر کہا جاتا کہ مرکز کی طرف سے مساوات کی حکمرانی کی پیروی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے ساتھ بار بار ناانصافی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بنچ کے سربراہ کو غیر متنازعہ ہونا چاہیے تھا۔

بلاول نے کہا کہ عوام کو نچلی عدالتوں سے زیادہ تحفظات ہیں۔ بلاول نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے کہا ہے کہ وہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے رابطہ کریں اور نچلی عدالتوں میں اصلاحات پر بات کریں۔ پی پی پی چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ جب تک نچلی عدالتوں میں اصلاحات نہیں ہوں گی مشن ادھورا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر زرداری کی صحت اس وقت بہتر ہے۔ چین سے متعلق ایک سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ چین نے ہمیشہ پاکستانی معیشت کی مدد کی ہے۔ دہشت گردی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ دہشت گردی کی آگ بلوچستان سے قبائلی علاقوں تک پھیل چکی ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرے۔

بلاول نے مزید کہا کہ عادت بن گئی ہے کہ دہشت گردی کے واقعے پر بیانات، تعزیت اور دورے کیے جاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت اپنی بات پر عمل کرے اور قوم کو بتائے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف کیا کر رہی ہے؟

Comments

200 حروف