سعودی ڈیٹا اینڈ اے آئی اتھارٹی (ایس ڈی اے آئی اے) کے مشیر ڈاکٹر سہیل منیر نے کہا کہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت نمایاں ترقی کے لیے تیار ہے اور 2030 تک یہ تقریباً 60 ارب ڈالر کا حصہ ڈال سکتی ہے، جس میں سے ایک تہائی (10 سے 20 ارب ڈالر) مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ترقی کے ذریعے حاصل ہوگا۔

ڈاکٹر منیر نے ان خیالات کا اظہار بدھ کے روز انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کمپنی سیگنس کے زیر اہتمام اے آئی کنورجنس سمٹ پاکستان کے موقع پر کیا۔

انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 10 فیصد تک بڑھا سکتی ہے اور اس میں سے کم از کم ایک تہائی اس متوقع ڈیجیٹل معیشت کی ترقی اے آئی کے ذریعے حاصل ہوگا۔

ڈاکٹر منیر کا اندازہ پی ڈبلیو سی کی ایک رپورٹ پر مبنی تھا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کی جی ڈی پی پر 2030 تک مصنوعی ذہانت کا مجموعی اثر 5.6 فیصد تک ہو سکتا ہے۔ یہ ایک وسیع عالمی نقطہ نظر کا حصہ ہے، جہاں مصنوعی ذہانت کی عالمی معیشت میں 2030 تک 15.7 ٹریلین ڈالر تک کا حصہ ڈالنے کی توقع کی جا رہی ہے جو چین اور بھارت کی مجموعی معیشت کے مجموعی پیداوار سے بھی زیادہ ہے۔

شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر منیر نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیجیٹلائزیشن اور اے آئی پاکستان کی معیشت کو ایک نمایاں فروغ دے سکتے ہیں۔

ایس ڈی اے آئی اے کے مشیر نے توقع ظاہر کی کہ پاکستان کی معیشت 2030 تک 600 ارب ڈالر کی جی ڈی پی تک پہنچ سکتی ہے جس کی وجہ مجموعی نمو اور ڈیجیٹلائزیشن کے تبدیلی کے اثرات ہیں۔

دریں اثناء سیگنس کے سی ای او احمد ہاشم نے کہا کہ اگرچہ مصنوعی ذہانت اب بھی پاکستان کے اندر اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لیکن آئی ٹی کے شعبے اور اس سے باہر اس کا اثر و رسوخ نمایاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری آئی ٹی برآمدات کا تقریبا 30 فیصد مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے۔

ہاشم نے اے آئی ایونٹ کے انعقاد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آنے والی تبدیلیوں میں خود کو سب سے آگے رکھنے کے خواہاں ہیں جو مصنوعی ذہانت اگلے ایک سے دو سالوں میں لائے گی۔

فوڈ پانڈا کے سی ای او منتقا پراچہ نے کہا کہ وہ مصنوعی ذہانت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسائل کو حل کرتے ہیں جیسے کہ رائیڈرز کو ریستوران سے آرڈر لینے کے لئے انتظار کا وقت کم کرنا، جس سے رائیڈرز کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ وہ زیادہ آرڈر دے سکتے ہیں۔

سیگنس کے صدر اور شریک بانی، ارسلان اکٹھا نے موجودہ مقامی سطح پر اے آئی کی خدمات کی کم مانگ کو تسلیم کیا مگر انہوں نے عالمی مارکیٹ سے آنے والے دباؤ کو اجاگر کیا جس کی وجہ سے بڑی آئی ٹی کمپنیوں کے لیے ایک نیا نقطہ نظر اپنانا ضروری ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ٹاپ آئی ٹی فرموں کے ایکسپورٹ پورٹ فولیو میں اس وقت 20 سے 30 فیصد مصنوعی ذہانت پر مبنی خدمات موجود ہیں۔

سمٹ کے دوران پینمبرا کے سی ای او حبیب اللہ خان نے ایک حالیہ رپورٹ سے آگاہ کیا جس میں ایک کلائنٹ نے نجی ایکویٹی فنڈ میں 100 ملین ڈالر سے زیادہ جمع کیے تھے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اگرچہ کچھ کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے استعمال کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن وہ ٹھوس کاروباری چیلنجوں کو حل کرنے کے بجائے کم لاگت خدمات پیش کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے برعکس بھارتی کمپنیاں ایک مختلف راستہ اختیار کرتی ہیں، صارفین کے ساتھ فعال طور پر مصروف رہتی ہیں تاکہ ان کے مخصوص مسائل جیسے نان پرفارمنگ لونز اور آن بورڈنگ پیچیدگیوں کو سمجھا جاسکے اور ان کے لئے مصنوعی ذہانت پر مبنی حل تیار کیے جاسکیں۔

حبیب اللہ خان نے وضاحت کی کہ یہ فعال نقطہ نظر انہیں مناسب حل فراہم کرنے کے قابل بناتا ہے اور اس طرح زیادہ سے زیادہ صارفین کو راغب کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری رہنماؤں کو مصنوعی ذہانت کے فوائد کو مؤثر طریقے سے پہنچانا اس کی پوری صلاحیت کو بروئے کار لانے اور انمول مواقع سے محروم نہ ہونے کے لئے اہم ہے۔

حبیب اللہ خان نے پاکستان کی ترقی پذیر معیشت میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے زیادہ حل پر مبنی نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو کاروباری ماڈلز میں شامل کرنے سے خاطر خواہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں- ایسا کرنے میں ناکامی سے مواقع ضائع ہوسکتے ہیں۔

Comments

200 حروف