باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا ہے کہ وفاقی کابینہ نے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کی تنظیم نو کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اسے نیشنل گرڈ کمپنی پروجیکٹس (پروجیکٹس) اور نیشنل گرڈ کمپنی اثاثہ جات (این جی سی اثاثہ جات) میں تقسیم کیا جائے گا۔

کابینہ نے پاور ڈویژن کی سمری کو 6 نومبر 2024 کو سرکولیشن کے ذریعے منظور کیا۔

این ٹی ڈی سی کو 1998 میں واپڈا کی ان بنڈلنگ کے نتیجے میں قائم کیا گیا تھا اور اسے کمپنیز آرڈیننس 1984 (اب کمپنیز ایکٹ 2017) کے تحت 6 نومبر 1998 کو بطور پبلک لمیٹڈ کمپنی شامل کیا گیا۔ نیپرا نے این ٹی ڈی سی کو 2002 میں نیپرا ایکٹ 1997 کے سیکشن 16 کے مطابق 30 سال کی مدت کے لیے ٹرانسمیشن لائسنس جاری کیا، جس میں وقتاً فوقتاً ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔

این ٹی ڈی سی سیکشن 17 کے تحت نیشنل گرڈ کمپنی ہے اور ملک بھر میں ٹرانسمیشن لائنز اور 220 کے وی / 500 کے وی گرڈ اسٹیشنز کی تعمیر اور دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران نہ صرف کمپنی کے روایتی بنیادی ڈھانچے میں کافی توسیع ہوئی ہے بلکہ کمپنی نے 765 کے وی اور ± 600 کے وی ایچ وی ڈی سی جیسی جدید ترین ہائی وولٹیج ٹیکنالوجیز میں بھی قدم رکھا ہے۔

پاور ڈویژن کے مطابق اس وقت این ٹی ڈی سی کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ وژن اور اسٹریٹجک پلاننگ کا فقدان، پرانے اور پیچیدہ کاروباری عمل، غیر مؤثر انتظامی ڈھانچہ اور سب سے بڑھ کر غیر موثر پراجیکٹ مینجمنٹ فریم ورک شامل ہے۔

نتیجتاً نہ صرف ٹرانسمیشن کا پورا نظام عدم استحکام اور عدم اعتماد کا شکار ہے بلکہ منصوبوں پر عملدرآمد میں بھی اکثر تاخیر ہوتی ہے جس سے خزانے کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

اوسطا ٹرانسمیشن لائنوں کے منصوبے جو 2 سے 3 سال میں نافذ کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے وہ 7 سے 8 سال سے زیادہ تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔

این ٹی ڈی سی کی اعلیٰ قیادت کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کی جانب سے متعدد بار منصوبوں میں مبینہ کرپشن اور پسندیدہ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے پر سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاور منسٹری کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کئی سینئر افسران نے جعلی ناموں سے اپنی کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں تاکہ اہم کمپنیوں کو دی جانے والی سہولتوں کے عوض ذیلی ٹھیکے حاصل کر سکیں۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ چونکہ صوبوں کے پاس ٹرانسمیشن کمپنیاں ہیں اور قائم کررہے ہیں، اس لیے این ٹی ڈی سی کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی آمدنی بھی سکڑ جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فنکشنل استعداد کار میں اضافے کے لیے این ٹی ڈی سی کو مارکیٹ آپریٹر کے فنکشن سے ہٹا دیا گیا اور سینٹرل پاور پرچیزنگ کمپنی گارنٹی (سی پی پی اے-جی) 2015 میں قائم کی گئی۔ اسی طرح سینٹرل پاور پرچیز اتھارٹی (سی پی پی اے) میں این ٹی ڈی سی کے سسٹم آپریٹر فنکشن اور مارکیٹ آپریٹر فنکشن کو ضم کرکے انڈیپنڈنٹ سسٹم اینڈ مارکیٹ آپریٹر (آئی ایس ایم او) کے قیام کی تجویز کو بھی کابینہ نے چند روز قبل منظوری دی تھی۔

اپریل 2024 میں ایک سیکٹرل بریفنگ کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے این ٹی ڈی سی کی کم کارکردگی پر تشویش کا اظہار کیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں وزیر برائے اقتصادی امور، وزیر برائے پاور، سیکریٹری پاور ڈویژن اور پاور سیکٹر کے ماہر ڈاکٹر فیاض احمد چودھری شامل تھے، تاکہ این ٹی ڈی سی کی تشکیل نو کے لیے ایک منصوبہ تجویز کیا جا سکے، جس میں اس کے ادارہ جاتی اور ساختی پہلوؤں کا مکمل جائزہ لیا جائے جو اس کی عملی نااہلیوں کے لئے ذمہ دار ہیں۔

کمیٹی نے غور و خوض کیا اور ادارہ جاتی اور عملدرآمد کے فریم ورک کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا جو 13 ستمبر 2024 کو ہونے والے اجلاس کے دوران وزیراعظم کو پیش کیا گیا تھا۔ اس منصوبے میں مندرجہ ذیل تجاویز شامل تھیں:(i) ایک نئی پروجیکٹ ڈویلپمنٹ کمپنی ”نیشنل گرڈ کمپنی (پروجیکٹس)“ قائم کی جائے، جو پروجیکٹ کی تیاری اور نفاذ (نئے اور دیکھ بھال سے متعلق دونوں) کے فنکشنز کو موجودہ این ٹی ڈی سی سے الگ کرے، ساتھ ہی خریداری، سپلائی چین اور ریونیو سینٹرز کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ نئی کمپنی کی فراہم کردہ خدمات این ٹی ڈی سی کے بجٹ کا 80فیصد سے زیادہ حصہ ہوں گی۔

(2) موجودہ این ٹی ڈی سی کا کردار ٹرانسمیشن سروس کی فراہمی اور اثاثوں کے انتظام تک محدود ہوسکتا ہے اور اسے نیشنل گرڈ کمپنی (اثاثہ جات) کا نام دیا جاسکتا ہے۔

وزیراعظم نے این ٹی ڈی سی کی تنظیم نو کے حوالے سے کمیٹی کی سفارشات اور تجاویز کی منظوری دی۔

پاور ڈویژن نے منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے سامنے سفارشات پیش کیں تاکہ نیشنل گرڈ کمپنی پروجیکٹس (پروجیکٹس) کو سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ساتھ رجسٹر کیا جاسکے اور این ٹی ڈی سی کا نام تبدیل کرکے نیشنل گرڈ کمپنی اثاثے (این جی سی اثاثے) رکھ دیا جائے جس کے لیے ضروری قانونی تقاضے اور دستاویزات مکمل کی جائیں۔

11 اکتوبر، 2024 کو جاری ہونے والی آئی ایم ایف اسٹاف رپورٹ کے مطابق، پاکستانی حکام نے نوٹ کیا کہ وہ این ٹی ڈی سی کو تین اداروں، انڈیپینڈنٹ سسٹم آپریٹر اینڈ مارکیٹ آپریٹر (آئی ایس ایم او) میں تشکیل نو کو بھی حتمی شکل دے رہے ہیں، جو این ٹی ڈی سی کے سسٹم آپریٹر فنکشن - پاور ٹرانسمیشن انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی (پی ٹی آئی ڈی سی) اور نیشنل ٹرانسمیشن مینٹیننس کمپنی (این ٹی ایم سی) کو سنبھالیں گے۔ اس تنظیم نو سے ٹرانسمیشن اور مارکیٹ آپریشنز دونوں کی آزادی اور نگرانی میں اضافہ ہوگا۔

نئے ادارے آپریشنل ہوں گے اور مکمل تنظیم نو دسمبر 2024 کے آخر تک مکمل ہوجائے گی جس کا مقصد سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی گارنٹیڈ (سی پی پی اے-جی) اور نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی) کو ضم کرکے ایک آزاد نظام اور مارکیٹ آپریٹر (آئی ایس ایم او) قائم کرنا ہے۔

تاہم، نیا ادارہ، جسے بجلی کی مارکیٹ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرنا ہے، وفاقی کابینہ سے باضابطہ منظوری حاصل کرنے اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی طرف سے نشاندہی کردہ کچھ مسائل کو حل کرنے کے بعد وجود میں آئے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف