ایف پی سی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری مانیٹری پالیسی سے مایوس ہے کیونکہ یہ بنیادی افراط زر کے مقابلے میں بھاری پریمیم پر مبنی ہے۔
اس وقت حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2024 میں افراط زر کی شرح 6.9 فیصد تھی لیکن پالیسی ریٹ 17.5 فیصد ہے جو بنیادی افراط زر کے مقابلے میں 1060 بیسس پوائنٹس کے پریمیم کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام صنعتوں اور شعبوں میں غور و خوض کے بعد ایف پی سی سی آئی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے آئندہ اجلاس میں شرح سود میں فوری طور پر 500 بیسس پوائنٹس کی کٹوتی کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ مانیٹری پالیسی کو معقول بنایا جاسکے۔ اور اسے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے وژن اور اقتصادی ترقی اور برآمدات کے لئے وزیر اعظم کے وژن سے ہم آہنگ کیا جائے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکتوبر 2024 کے مہینے میں بنیادی افراط زر 7 فیصد کے قریب رہنے کی توقع ہے۔
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے وضاحت کی کہ تیل کی بین الاقوامی قیمتیں بھی کم رہنے کی توقع ہے اور سعودی عرب کی جانب سے دسمبر میں ایشیا کے لیے خام تیل کی قیمتوں میں کمی کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ پاکستان میں افراط زر کے دباؤ میں اضا فہ پیدا کرنے میں تیل قیمتیں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے عوامل میں سے ایک ہیں۔
پاکستان میں حکام کے پاس اب پا لیسی شرح میں خاطر خواہ اور بڑی کمی کا اعلان کرنے کے لیے تمام لوازمات موجود ہیں اور انہیں اب رجعت پسندانہ، غیر پیداواری اور معاشی سکڑاؤ پر محیط مانیٹری پالیسی سے اب آگے بڑھ جانا چاہیے۔
عاطف اکرام شیخ نے فیڈریشن کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان کاروبار کرنے کی لاگت؛کاروبار کرنے میں آسانی اور فنانس تک رسائی میں برآمدی منڈیوں میں اپنے تمام حریفوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ چلینجز کا شکار ہے۔ خوش قسمتی سے، پاکستان میں مہنگائی کے دباؤ میں فیصلہ کن کمی کا رجحان پچھلے کئی مہینوں سے جاری ہے اور اقتصادی ترقی کے راستے پر واپس آنے کا واحد قابل عمل حل صنعت اور برآمدات کو سپورٹ کرنا ہے۔
سنیئرنائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے تجویز پیش کی کہ شرح سود کو فوری طور پر 12.5 فیصد تک لایا جائے؛تاکہ پاکستانی برآمد کنندگان کسی حد تک سرمایہ کی لاگت کو بامعنی انداز میں کم کرکے علاقائی اور بین الاقوامی برآمدی منڈیوں میں مقابلہ کرسکیں۔ یہ قدم صنعت کے لیے بجلی کے نرخوں کو معقول بنانے کے حکومتی وعدے کی تکمیل کے ساتھ ہونا چاہیے اور حکومت کو تمام آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ پاور پرچیز ایگریمنٹس (پی پی ایز) کو ٹیک اینڈ پے کی بنیاد پر دوبارہ طے کرنا چاہیے۔ اس کا مثبت نتیجہ یہ ہو گا کہ صنعت اور صارفین اپنے بجلی کے بلوں میں کیپیسٹی چارجز ادا کرنے سے آزاد ہو جائیں گے۔
۔ایف پی سی سی آئی، پاکستان کے اعلیٰ ترین تجارتی و صنعتی ادارہ ہونے کے ناطے، پاکستان کی پوری کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کی جانب سے اقتصادی پالیسی سازی میں شفافیت اور مشاورت لانے کے لیے حکومت کی اپروچ پر مسلسل سوال اٹھاتی رہی ہے اور اپنے موقف کا اعادہ کرتی ہے کہ حکومت کو کاروباری اداروں کو ان کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے دو سوالوں کے جوابات فراہم کرنے چاہییں،: (i) نئے آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ان کا معیشت اور پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت پر کیا اثر پڑے گا؟ (ii) پاکستان کو ترقی کی ڈگر پر واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے اور حکومت ان اقدامات پر کاروباری برادری کو کیسے اور کب اعتماد میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے؟
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments