پی پی آئی بی کے باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ چین کی نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن (این ای اے) نے اصولی طور پر ایک ایڈہاک ورکنگ گروپ قائم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے تاکہ کوئلے سے چلنے والے 3 درآمدی پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کے حوالے سے بات چیت کو سہولت فراہم کی جا سکے۔

یہ اپ ڈیٹ پاور ڈویژن کے ساتھ شیئر کی گئی جو حکومت پاکستان کی کم شرح نمو کے جال سے نکلنے کی کوششوں کو معاونت فراہم کرنے کے لیے سیکٹورل پلان کو حتمی شکل دے رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق چین کی نمائندگی این ای اے کے شعبہ بین الاقوامی تعاون، اس کے پلاننگ ڈپارٹمنٹ اور پاکستان میں پاور پلانٹس کے آپریشنز میں شامل چینی کاروباری اداروں کے حکام کریں گے۔

مزید برآں، وزارت توانائی (پاور ڈویژن) نے تھر کوئلے میں پلانٹس کو تبدیل کرنے کے بارے میں مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈیز کے لئے آئی پی پیز اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ کرنے، کوئلے کی نقل و حمل کے لاجسٹکس کا جائزہ لینے، مطالعات کا جائزہ لینے اور حتمی شکل دینے، تبدیلی کیلئے سفارشات اور عملدرآمد کا منصوبہ فراہم کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

لکی اور جامشورو کو مقامی کوئلے کی فراہمی کے بارے میں پی پی آئی بی نے کہا کہ ایس ای سی ایم سی کی جانب سے تھر بلاک کی کان کی توسیع (فیز تھری) کے لئے فنانشل کلوز (ایف سی) کا عمل جاری ہے جو 2024 کے آخر تک متوقع ہے۔

ایس ای سی ایم سی کی رپورٹ کے مطابق تیسرے مرحلے کی کمرشل آپریشن ڈیٹ (سی او ڈی) مارچ 2025 میں متوقع ہے جس کے بعد ایل ای پی سی ایل کو کوئلہ فراہم کیا جائے گا۔ مزید برآں جامشورو پاور پلانٹ کو کوئلے کی فراہمی کے حوالے سے ایس ای سی ایم سی، کے الیکٹرک اور جی ایچ سی ایل موجودہ صورتحال فراہم کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں۔

پی پی آئی بی نے مزید کہا کہ ایس ای سی ایم سی اور جامشورو کے درمیان کوئلے کی فراہمی کے معاہدے پر عملدرآمد ایس ای سی ایم سی اور حکومت سندھ سے متعلق ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ تین درآمدی کوئلہ پلانٹس کو مقامی کوئلے میں تبدیل کرنے کے لیے مقامی بینکوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہی ہے، اس سلسلے میں وزارت خزانہ میں دو یا تین اجلاس ہوچکے ہیں۔

پی پی آئی بی کے ایک اور اجلاس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ابتدائی مطالعہ جرمنی کی میسرز فچٹنر نے کیا تھا جس میں درآمدی کوئلے سے مقامی تھر کوئلے میں پلانٹس کو تبدیل کرنے کی حمایت کی گئی تھی۔

ذرائع کے مطابق پاکستانی ٹیم نے اشارہ دیا کہ بجلی گھروں کی منتقلی اور کانوں کی توسیع کے لیے کیپیکس کو مقامی بینکوں سے فنانس کی جا سکتی ہے اور اس سے چینی یا موجودہ قرض دہندگان کے ایکسپوژر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مزید یہ بتایا گیا کہ تھر سے کوئلے کی ترسیل کے لیے ریلوے لائن کی تعمیر جاری ہے اور یہ منصوبوں کی مقامی کوئلے پر منتقلی سے پہلے مکمل ہو جائے گی۔

پاکستانی حکام نے بتایا کہ مقامی کوئلے پر منتقلی سے بجلی گھروں کی ڈسپیچ میں بہتری آئے گی، آمدنی میں اضافہ ہوگا اور صارفین کے لیے ٹیرف کم ہو کر سی ایچ ایچ جی سی، پورٹ قاسم اور ساہیوال کے لیے بالترتیب 16.4 روپے فی یونٹ سے 7.03 روپے اور 11.40 روپے فی یونٹ تک آجائے گا۔’’

حکومت کے تخمینوں کے مطابق، زرمبادلہ کی بچت سے آئی پی پیز کے ڈیوڈنڈ اور قرضوں کی ادائیگی میں تقریباً 892 ملین ڈالر تک کی سہولت میسر آئے گی، اور نقدی کے مسائل کسی حد تک حل ہوں گے؛ اس کے علاوہ، یہ تبدیلی پاکستان کے بجلی شعبے کو مالی طور پر مستحکم بنانے میں معاون ہوگی۔

چینی فریق نے نشاندہی کی کہ درآمد شدہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو مقامی کوئلے یعنی تھر میں تبدیل کرنے پر 15 اور 17 مئی 2024 کو ہونے والے آٹھویں ای پی ای پی اجلاس میں مکمل تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ انہوں نےکہا کہ اگرچہ منتقلی فاریکس کی بچت اور ٹیرف میں کمی سمیت متعدد متعلقہ مسائل کو حل کرسکتا ہے لیکن اس میں تکنیکی مطابقت سمیت بہت سے پہلو بھی شامل ہیں۔ چینی فریق نے مندرجہ ذیل تبصرے پیش کیے “تبدیلی نے چینی اداروں کے لئے بہت سے خدشات پیدا کیے ہیں کیونکہ تھر کوئلہ چین کے موجودہ پلانٹس کے سازوسامان کے لئے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔

چینی فریق نے مؤقف اختیار کیا کہ فچٹنر (مشیر) کے تخمینوں اور منصوبے کے اسپانسرز کے تخمینوں میں کافی فرق ہے۔ چینی کاروباری اداروں کو تھر کے کوئلے کو استعمال کرنے کے لئے مناسب ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا اور چین کی طرف سے اسٹیک ہولڈرز سے منظوری حاصل کرنا ہوگی کیونکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہوگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی فریق نے مزید کہا کہ اس نے 2017 میں دوسری ای پی ای پی میٹنگ کے دوران کوئلے کی نقل و حمل اور ٹرانسمیشن لائن وغیرہ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ چین کی طرف سے کہا گیا کہ اگرچہ انہوں نے کوئلے کی تبدیلی پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں ، پھر بھی انہیں امید ہے کہ یہ کامیابی سے ہوگا۔

چینی وفد کے رہنما نے تجویز پیش کی کہ این ای اے اس سلسلے میں دونوں فریقوں کے خدشات کو مدنظر رکھے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف