پاکستان

آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات: نیپرا کا ’اہم‘ عوامل پر تشویش کا اظہار

  • ستمبر 2024 کے لیے کے الیکٹرک کے لیے عارضی فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ پر عوامی سماعت کے دوران خدشات کا اظہار
شائع November 1, 2024

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ مذاکرات میں ایسے عوامل پر تشویش کا اظہار کیا جو ملک میں سرمایہ کاری پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر ان خدشات کا اظہار نیپرا ارکان نے ستمبر 2024 کیلئے کے الیکٹرک کے لیے عارضی فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) سے متعلق عوامی سماعت کے دوران کیا۔ کے الیکٹرک نے صارفین کو 24 کروڑ 70 لاکھ روپے واپس کرنے کے لیے 16 پیسے فی یونٹ کی منفی ایڈجسٹمنٹ اور جنرل سیلز ٹیکس کی درخواست کی ہے۔

سماعت کے دوران کئی مداخلت کاروں نے نیپرا کے رکن (ٹیرف اور مالیات) مطہر نیاز رانا کے کے-الیکٹرک کے جنریشن ٹیرف پر اختلافی نوٹ کی تعریف کی۔ انہوں نے پانچ آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے حالیہ معاہدوں کی منسوخی اور دیگر پاور پلانٹس کے ساتھ جاری مذاکرات پر بھی بات چیت کی۔

یہ مذاکرات انرجی ٹاسک فورس کی قیادت میں ہورہے ہیں جس کی سربراہی وزیر توانائی سردار اویس خان لغاری کر رہے ہیں ، جس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی محمد علی، چیئرمین نیپرا لیفٹیننٹ جنرل محمد ظفر اقبال، سی پی پی اے-جی کے سی ای او اور نیپرا، سی پی پی اے-جی، ایس ای سی پی اور پی پی آئی بی کے دیگر ماہرین شامل ہیں۔

جب آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے معاہدوں کی حالیہ منسوخی کا مسئلہ اٹھایا گیا تو نیپرا کی رکن آمنہ احمد (قانون) اور رکن رفیق احمد شیخ (تکنیکی) نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

رکن قانون آمنہ احمد نے کہا کہ حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔ میڈیا میں جو آئی پی پیز کے معاہدوں کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں، وہ اصل پالیسی نہیں ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ایسی چیزیں ہو رہی ہیں۔’’

رکن تکنیکی رفیق احمد شیخ، جو جماعت اسلامی کے نمائندے عمران شاہد کے ذاتی ریمارکس پر ناخوش دکھائی دیے، نے آئی پی پی کے سرمایہ کاروں کے حوالے سے آمنہ احمد کے خیالات کی حمایت کی۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس کا مقصد سرمایہ کاروں کو بجلی کے شعبے سے باہر نکالنا ہے۔ عمران شاہد نے نیپرا ممبران پر الزام عائد کیا کہ وہ صارفین کے خرچ پر مالی فوائد فراہم کرنے کے لیے کے الیکٹرک کے ساتھ ملی بھگت کر رہے ہیں۔ رفیق احمد شیخ اور آمنہ احمد نے سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے نمائندے کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان پر مایوسی کا اظہار کیا۔

اس موقع پر رفیق احمد شیخ نے اعلان کیا کہ وہ تجویز پیش کریں گے کہ صرف کاروباری برادری اور متعلقہ چیمبرز کے نمائندوں کو بات کرنے کی اجازت دی جائے، جس سے ان کی سیاسی نمائندگی پر عدم اطمینان ظاہر ہوا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم یہاں اپنی تذلیل کے لیے نہیں ہیں۔ ہمارے صبر کی بھی حد ہے۔ اگر کسی کو ہمارے فیصلوں پر شبہ ہے تو نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا طریقہ موجود ہے۔‘‘

انہوں نے نیپرا ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ عارف بلوانی کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کو دستاویزی شکل دے کر کے الیکٹرک کی انتظامیہ سے تفصیلی جواب طلب کرے۔

بلوانی نے موقف اختیار کیا کہ ایف سی اے میں 16 پیسے کا ریلیف نیشنل گرڈ سے فراہم کی جانے والی بجلی کی وجہ سے ہے کیونکہ ستمبر 24 میں کے الیکٹرک کی اپنی پیداوار مہنگی ہوئی تھی۔ انہوں نے دو پلانٹس پر ایل این جی کے دباؤ پر بھی سوال اٹھایا جن میں سے ایک کمپریسر استعمال کررہا ہے۔ کے الیکٹرک انتظامیہ نے ان انکوائریز کا جواب دیا اور کمپریسر کی تنصیب کی وضاحت کی۔

کراچی چیمبر کے نمائندے تنویر بیری نے کراچی کے صارفین کے ساتھ امتیازی سلوک پر ایف سی اے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ڈسکوز کے لیے ایف سی اے ایڈجسٹمنٹ ستمبر 24 کیلئے 71 پیسے فی یونٹ ہے جبکہ کے الیکٹرک کے صارفین کو صرف 16 پیسے فی یونٹ ریلیف ملے گا۔

بیری نے کے الیکٹرک پر زور دیا کہ وہ ٹیرف کو کم کرنے اور صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لئے قابل تجدید توانائی کو اپنے جنریشن مکس میں شامل کرے۔

کے الیکٹرک کے ڈائریکٹر فنانس ایاز جعفر نے ریمارکس دیئے کہ کے الیکٹرک کے ایف سی اے کے نرخ گزشتہ دو سے تین سالوں سے ڈسکوز کے مقابلے میں کم ہیں، ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ پاور پلانٹس کے لیے مقامی گیس کی عدم دستیابی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اگر مقامی گیس فراہم کی جائے تو کے الیکٹرک کی فیول لاگت 8 سے 10 روپے فی یونٹ تک گرسکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کے الیکٹرک کی مجموعی پیداوار 2023 کے اسی مہینے کے مقابلے میں ستمبر 2024 میں 6 فیصد کم رہی، صنعتی شعبے میں 12 سے 13 فیصد اور گھریلو شعبے میں 3 فیصد کمی ہوئی جس کی بنیادی وجہ ملک کے معاشی حالات ہیں۔ تاہم موسم سرما کے پیکج سے معاشی سرگرمیوں اور بجلی کی طلب میں اضافہ متوقع ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف