پاکستان

سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دیدی

  • آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نیا قانون منظوری کے لیے صدر آصف علی زرداری کو بھیجا جائے گا۔
شائع 21 اکتوبر 2024 09:45am

قومی اسمبلی نے عدلیہ سے متعلق آئینی پیکج 26 ویں ترمیم کا بل پیر کی علی الصبح منظور کرلیا۔

یہ پیش رفت سینیٹ کی جانب سے کئی ہفتوں کے سیاسی مذاکرات کے بعد اتوار کو بل کی منظوری کے بعد سامنے آئی ہے۔

اس سے قبل اتوار کو وفاقی کابینہ نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سمیت حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر آئینی پیکیج کو منظوری دی تھی۔

سینیٹ کی طرح وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اتوار کی رات دیر گئے شروع ہونے والے اجلاس کے دوران قومی اسمبلی میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا جو پیر کی صبح تک جاری رہا۔

نذیر تارڑ نے بل کی اہم خصوصیات کا خاکہ پیش کیا، جسے سینیٹ پہلے ہی منظور کرچکی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت یہ نیا قانون منظوری کے لیے صدر آصف علی زرداری کو بھیجا جائے گا۔

26 ویں ترمیم بل 2024 کے چند اہم نکات:

  • چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کی گئی ہے۔

  • 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی 3 سینئر ترین ججز کے پینل میں سے نئے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی۔

  • قومی اسمبلی کے 8 اور سینیٹ کے 4 ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی وزیراعظم کو نام تجویز کرے گی جو اسے صدر مملکت کو حتمی منظوری کے لیے بھیجیں گے۔

  • چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) عدالتی تقرریوں کی نگرانی کرے گا جس میں 3 سینئر ججز، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو، دو ممبران، وفاقی وزیر قانون و انصاف، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کا کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھنے والے ایک قانونی ماہر شامل ہوں گے۔

حکومت کو بل کی منظوری کے لئے 224 ووٹوں کی ضرورت تھی۔

قومی اسمبلی کے 225 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کے 12 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔

قرارداد کے حق میں 225 ووٹ پڑے جن میں سے حکومت کے پاس 211، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 8 اور آزاد اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 6 ووٹ تھے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے لیے ووٹنگ کے عمل سے غیر حاضر رہے گی۔ انہوں نے یہ اعلان اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 50 منٹ سے زائد کی تقریر کی۔ انہوں نے بل کی منظوری میں اہم کردار ادا کرنے پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا شکریہ ادا کیا۔

اس بل کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے مولانا فضل الرحمان نے سب سے زیادہ کوشش کی۔ اس عمل میں ان کا کردار تاریخی رہا ہے اور میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے اس میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس ترمیم میں ایسے نکات ہیں جو 100 فیصد سیاسی اتفاق رائے سے منظور کیے گئے ہیں۔

بلاول بھٹو نے بل میں حصہ لینے پر دیگر جماعتوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے پی ٹی آئی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اس تاریخی کامیابی میں کردار ادا کرنے پر پی ٹی آئی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ایک سیاسی کامیابی ہے، اور کاش آپ اپنی جیت کو نقصان کے طور پر پیش نہ کرتے۔

قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے ایوان میں آکر ان ترامیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستانی عوام کی خواہشات کی عکاسی نہیں کرتیں۔

انہوں نے وزیر قانون تارڑ اور بلاول بھٹو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جو لوگ لاپتہ ہوئے ان کا بھی شکریہ ادا کیا جانا چاہیے تھا۔

’’یہ سب ہم پر دباؤ ڈالنے کے حربے ہیں۔ جیل میں عمران خان کے ساتھ بدسلوکی بھی اس کی ایک مثال ہے۔

پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا کہ اس کے 7 ارکان اسمبلی کو ”اغوا“ کیا گیا ہے اور حکومت ”بندوق کی نوک“ پر ترمیم نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

عمر ایوب خان نے ان ترامیم کو منظور کرنے کی فوری ضرورت پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ 31 اکتوبر کو منظور ہوجاتی تو کیا ہوتا؟

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ترامیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے کی کوشش ہیں۔

ہمیں نہیں لگتا کہ یہ حکومت آئینی ترمیم لانے کے قابل ہے۔ لہٰذا ہم نے پی ٹی آئی ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس عمل کا حصہ نہ بنیں۔

’چیف جسٹس کا انتخاب تین سینئر ترین ججوں میں سے کیا جائے گا‘

یہ بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا ہے جب موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رواں ماہ کے آخر میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔

اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون تارڑ نے کہا کہ حکومت 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے اصول پر نظر ثانی کرنے جا رہی ہے اور چیف جسٹس کا انتخاب تین سینئر ترین ججوں میں سے کیا جائے گا۔

ہمیں یقین ہے کہ تقرری کے عمل میں شفافیت ہوگی۔ چیف جسٹس کی مدت ملازمت 3 سال مقرر کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 65 سال ریٹائرمنٹ کی حد ہے اور اگر کوئی جج ریٹائرمنٹ کی عمر سے پہلے چیف جسٹس بن جائے تو اس کی بقیہ مدت ریٹائرمنٹ سمجھی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کو بنچوں کی تشکیل کا حق حاصل ہوگا۔

**ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے ترمیم کی جائیگی، وزیراعظم **

سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کی گئی ترمیم ملکی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگی اور اس کے ساتھ اس کے مستقبل کو بھی محفوظ بنائے گی۔

“یہ ایک تاریخی دن ہے. 26 ویں آئینی ترمیم محض ایک ترمیم نہیں بلکہ قومی یکجہتی اور اتحاد کی ایک اور شاندار مثال ہے۔ ایوان میں قانون سازی کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج ایک نئی صبح آئے گی اور ایک نیا سورج طلوع ہوگا جو پورے ملک کو روشن کرے گا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نئی آئینی ترمیم سے حکومتوں کو ہٹانے اور وزرائے اعظم کو ہٹانے کی سازشوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی جبکہ ریکوڈک اور کارکے جیسے فیصلوں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی جس سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ یہ ترمیم ان لاکھوں لوگوں کے مصائب کو بھی دور کرے گی جنہیں سپریم کورٹ سے انصاف حاصل کرنے کے لئے سالوں تک انتظار کرنا پڑا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم بل کی منظوری کے ساتھ میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے جس پر 2006 میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے دستخط کیے تھے اور مولانا فضل الرحمان نے بھی اس کی توثیق کی تھی۔

اپوزیشن کے ایک رکن کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ قانون سازی اتحادی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ووٹوں سے کی گئی ہے نہ کہ کسی پارٹی بدلنے والے نے کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک نے جسٹس کیانی اور جسٹس رابرٹ کارنیلیئس جیسے عظیم جج دیکھے ہیں، لیکن ایسے جج بھی تھے جنہوں نے دو وزرائے اعظم کو برطرف کیا، جن میں سے ایک کو اقامہ کی بنیاد پر نکالا گیا، جب کہ پانامہ کیس میں کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے خواہش ظاہر کی کہ تحریک انصاف قانون سازی کے عمل میں شامل ہوتی، لیکن انہوں نے کہا کہ ان کی عدم موجودگی کے باوجود پارلیمنٹ نے یہ پیغام دیا کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں نے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر آئینی ترمیم منظور کی ”جو ملک کی تاریخ میں سنگ میل بن جائے گی“۔

بعد ازاں وزیراعظم نے 26ویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد صدر پاکستان کو توثیق کے لیے بھیجے جانے کی منظوری پر دستخط کر دیے۔

Comments

200 حروف