فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) میں تاجر برادری سے خطاب کے دوران ایف بی آر کے اندر بڑے پیمانے پر کرپشن کا اعتراف کیا ہے۔
راشد محمود لنگڑیال نے انکشاف کیا کہ ایف بی آر حکام نے انہیں ”اسپیڈ منی اسکیم“ کے بارے میں آگاہ کیا تھا جس میں کل ٹیکس ریفنڈز کا 5 سے 10 فیصد رشوت کے طور پر وصول کیا جاتا ہے تاکہ زیر التوا ریفنڈز کے اجراء میں تیزی لائی جا سکے۔ اس کے مقابلے کیلئے انہوں نے بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کے لئے ریفنڈ کے عمل کو ڈیجیٹل بنانے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے اختتام تک مہنگائی اور پالیسی ریٹ میں 3 سے 4 فیصد کمی متوقع ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے جمود کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے 2016 میں 3.1 ٹریلین روپے جمع کیے اور محصولات کی وصولی میں کوئی بہتری نہیں آئی جو 2024 میں بھی 3.1 ٹریلین روپے تھی، اگر ہم افراط زر، کرنسی کی قدر میں کمی اور دیگر عوامل کو ایک طرف رکھ دیں۔
راشد محمود لنگڑیال نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے کم تناسب کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ایف بی آر میں ایماندار افسران کی کمی نے ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی ہے۔
ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے متعلق بات کرتے ہوئے، راشد محمود لنگریال نے تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، “اب ہمیں ملک چلانے کی اپنی عادت کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ اب وہ گنجائش موجود نہیں ہیں جو ماضی میں جغرافیائی سیاسی حالات کی وجہ سے ہماری معیشت کو سہارا دیتی تھیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے ٹیکس کی تعمیل سے متعلق اعداد و شمار شیئر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ زیادہ آمدنی والے صرف 29 فیصد افراد ٹیکس ریگولیشنز کی تعمیل کرتے ہیں جبکہ تنخواہ دار افراد میں یہ شرح 95 فیصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل آبادی کا 5 فیصد قابل ٹیکس آمدنی کماتا ہے جبکہ صرف ایک فیصد افراد جو ممکنہ طور پر 1.7 ٹریلین روپے انکم ٹیکس میں حصہ ڈال سکتے ہیں جو اس وقت صرف 500 ارب روپے ادا کر رہے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ چونکہ ہمارے محصولات کی وصولی کو قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے استعمال کیا جارہا ہے لہذا ایف بی آر حکام کے پاس ریونیو جمع کرنے کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے پہلے سے رجسٹرڈ کاروباری اداروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
راشد محمود لنگریال نے حالیہ تنازعات کا بھی ذکر کیا ، جس میں چیف فنانشل آفیسرز (سی ایف اوز) سے حلف نامہ جمع کرنا بھی شامل ہے ، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد نئی ضروریات متعارف کروانے کے بجائے موجودہ قوانین کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔
قبل ازیں ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے اپنے استقبالیہ خطاب میں برآمدات، ایس آر او 350، اسمگلنگ، ایپزا اور دیگر سے متعلق مسائل پر روشنی ڈالی۔
تقریب میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تاجروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جس میں چیئرمین ایف بی آر نے ممبر کسٹمز کو ہدایت کی کہ وہ کراچی کے بجائے داخلی راستوں پر انسداد اسمگلنگ کی کوششوں پر توجہ دیں۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اور ادارہ اپنے ٹیکس محصولات میں اضافے کی کوشش کر رہا ہے، چیئرمین ایف بی آر کا یہ واضح اعتراف ملک کے ٹیکس وصولی کے نظام میں اصلاحات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments