کراچی پولیس نے اتوار کو شہر میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 35 افراد کو گرفتار کرلیا۔ کراچی پریس کلب کے باہر ڈاکٹر شاہنوار کنبھار کے قتل کیخلاف مظاہرے کیلئے جمع ہونے والے افراد اور پولیس کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی ہے۔ یہ بات آج نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتائی۔
ڈاکٹر شاہنواز، جن پر توہین مذہب کا الزام تھا، کو گزشتہ ماہ مبینہ طور پر میرپورخاص میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تھا۔ سندھ رواداری مارچ کے تحت انسانی حقوق کے کارکنوں نے اتوار کو تین تلوار سے کراچ پریس کلب تک ”سندھ میں مذہبی انتہا پسندی“ اور ڈاکٹر شاہنواز کے ”ماورائے عدالت قتل“ کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے بھی اپنے حامیوں کو اسی دن تحفظ ناموس رسالتؐ مارچ کے لیے تین تلوار سے کے پی سی تک جمع ہونے کی دعوت دی تھی۔
دوسری جانب سندھ حکومت نے شہر میں 13 اکتوبر سے 5 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔ دفعہ 144 ایک قانونی شق ہے جو ضلعی انتظامیہ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ محدود مدت کے لئے کسی علاقے میں چار یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگا سکتے ہیں۔
پولیس نے کنٹینرز کی مدد سے پریس کلب کے اطراف کی سڑکیں بند کردیں جبکہ شہر بھر بالخصوص ریڈزون میں سیکڑوں اہلکار تعینات کرر رکھے ہیں، جہاں اہم سرکاری عمارتیں ہیں ، جس کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں ٹریفک کا رش بڑھ گیا۔
عوامی اجتماعات پر پابندی کے باوجود پریس کلب کے باہر پہنچنے پر پولیس نے اتوار کے روز متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ اسے سندھ روادری مارچ سے وابستہ خواتین سمیت مظاہرین کی گرفتاری پر ’شدید تشویش‘ ہے۔
بیان کے مطابق ایچ آر سی پی کو یہ جان کر شدید تشویش ہے کہ سندھ روادری مارچ سے وابستہ کم از کم 37 مظاہرین (بشمول خواتین) کو کراچی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ ڈاکٹر شاہنواز کنبھار کے قتل کیخلاف اور انصاف کا مطالبہ کرنے کے لیے پرامن اجتماع منعقد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ٹوئٹر پر جاری بیان کے مطابق پولیس نے ایچ آر سی پی کے چیئرمین اسد اقبال بٹ کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی ہے اور انہیں پریس سے بات نہ کرنے کی تنبیہ کی ہے۔ ہمیں دن بھر مزید گرفتاریوں کا ڈر ہے۔
ایچ آر سی پی نے گرفتار افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ “سندھ روادری مارچ میں صوبہ بھر سے انصاف پسند آوازیں شامل ہیں، جن میں انسانی حقوق کے محافظ، ٹریڈ یونینز اور فیمنسٹ تحریکیں شامل ہیں، اور انہیں احتجاج کرنے کا آئینی حق حاصل ہے۔
Comments