پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری میں مزید تاخیر کا امکان ہے، کیونکہ ممکنہ خریداروں نے حکومت کی جانب سے مجوزہ شیئر ہولڈر اور سیل پرچیز معاہدوں کے حوالے سے متعدد خدشات ظاہر کیے ہیں۔
ابتدائی طور پر جون جولائی 2024 تک قومی ائر لائن کی نجکاری کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جسے بعد میں یکم اکتوبر اور پھر 31 اکتوبر تک بڑھا دیا گیا۔
بولی دہندگان کی جانب سے نئے مطالبات سامنے آنے کے بعد امکان ہے کہ یہ تازہ ترین ڈیڈ لائن بھی ضائع ہوجائے گی کیونکہ ممکنہ خریدار مبینہ طور پر ٹیکس چھوٹ، ملازمین کی تعداد میں کمی اور ائرلائن کے واجبات کے بارے میں مزید وضاحت چاہتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ بعض کارکردگی کے اہداف قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے،جن میں طیاروں کی تعداد بڑھانا، طے شدہ ملکی اور بین الاقوامی روٹس پر پروازیں چلانا اور ائرلائن میں 500 ملین ڈالر کی ضمانت شدہ سرمایہ کاری شامل ہیں۔
پی آئی اے کی نجکاری ہمیشہ ایک سیاسی حساس موضوع رہا ہے، جو مختلف حکومتوں کے درمیان منتقل ہوتا رہا ہے۔ ہر حکومت فیصلہ کن اقدام اٹھانے سے گریز کرتی ہے، کیونکہ ناکام فروخت کی صورت میں عوامی ردعمل کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس سے ایک سرکاری ملکیت کے ادارے کی نجکاری کی پیچیدگی پر روشنی ڈالی گئی ہے جو نالائقی میں گھرا ہوا ہے اور بھاری اور ناقابل برداشت قرضوں/ نقصانات کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔
اگر پی آئی اے کی نجکاری کئی سال پہلے کی گئی ہوتی تو یہ عمل زیادہ آسان ہوسکتا تھا؛ لیکن اس میں تاخیر نے اس کے نقصانات اور واجبات کو بڑھنے کی اجازت دی ہے، جس سے حکومت کی کوششیں پیچیدہ ہو گئی ہیں کہ وہ اپنے مفادات اور ان ہزاروں پی آئی اے ملازمین کے مفادات کی حفاظت کرسکے جو اپنی ملازمتوں کے خطرے میں ہیں۔
قومی ائرلائن کی موجودہ خستہ حالی نے حکومت کے لیے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری بنا دیا ہے: کوئی بھی سمجھدار خریدار اس وقت تک اسے حاصل کرنے پر غور نہیں کرے گا جب تک کہ اسے موجودہ شرائط سے کہیں زیادہ سازگار پیشکش نہ کی جائے۔
ممکنہ خریداروں کیلئے کچھ ہدف واضح طور پر دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً، خریدار سے پہلے سے طے شدہ روٹس پر پروازیں چلانے کی توقع کرنا سوالیہ نشان ہے، کیونکہ پی آئی اے کے روٹس، شاید چند ایک کے علاوہ، اتنے منافع بخش نہیں ہیں جتنا کہ سمجھا جاتا ہے۔ در حقیقت، اربوں کے نقصانات اور واجبات کے پیش نظر، حکومت کی جانب سے نجکاری کے عمل سے خاطر خواہ آمدنی پیدا کرنے کی توقع بالکل غلط فہمی ہے۔
ہوابازی کا شعبہ انتہائی مہارت طلب ہے اور عالمی سطح پر ریگولیشن کے خاتمے کے بعد بے حد مسابقتی بن چکا ہے۔ اس شعبے میں نئے داخل ہونے والے، جن کا کوئی یا بہت کم تجربہ ہے، مختصر مدت میں مہارت حاصل کرنے کی توقع نہیں کرسکتے۔
جیسا کہ ورجن اٹلانٹک کے سر رچرڈ برینسن نے کہا تھا کہ اگر آپ کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں تو ایک ارب ڈالر سے شروع کریں اور ایک نئی ائر لائن کا آغاز کریں ۔ تو پی ائی اے کے لیے مثالی خریدار وہ ائرلائن ہونی چاہیے تھی جو پہلے سے موجود ہو اور جس کے پاس کامیاب ہوابازی کے کاروبار کا کچھ تجربہ ہو۔
تاہم، زیادہ تر بولی دہندگان یا تو اس شعبے میں نئے داخل ہوئے ہیں، یا مالی طور پر مضبوط ادارے ہیں جن کے پاس ائر لائن چلانے کا نہ ہونے کے برابر تجربہ اور علم ہے۔پی آئی اے کے سامنے آنے والے چیلنج کی وسعت نے بولی دہندگان کی جانب سے حکومت کی شرائط میں کمی کی راہ ہموار کی ہے، جس سے یہ ممکن ہے کہ حکومت کو خریدار کے لیے طے کردہ اہداف میں کچھ نرمی کرنی پڑے۔
حکومت کے خدشات یہ ہیں کہ انہیں ممکنہ طور پر ”فیملی سلور“ کو سستے داموں بیچنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے، جو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ تاہم، تجویز کردہ معاہدوں میں طے شدہ شرائط کا دوبارہ جائزہ لینا ضروری ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ یہ عمل ائرلائن کے انفرادی اثاثوں کو فروخت کرنے کے عمل میں تبدیل نہ ہو۔ یہ ایک کامیاب نجکاری کے عمل کے برعکس ہوگا، جہاں پی آئی اے نئے مالکان کی جانب سے ری پروفائل اور ری اسٹرکچرنگ کے بعد بھی کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
آخر کار حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کامیاب بولی لگانے والے کی جانب سے پی آئی اے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی جائے، افرادی قوت کے مفادات کا ہر ممکن حد تک تحفظ کیا جائے اور ائرلائن بالآخر ایک قابل عمل کاروبار کے طور پر کام کرنے کے قابل ہو۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments