جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی مجوزہ آئینی اصلاحات کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔ یہ بات آج نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتائی ہے۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کی جانب سے ان کے گھر پر دیے گئے ظہرانے میں شرکت کی اور اس موقع پر حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے پیش کی جانے والی آئینی ترامیم پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حزب اختلاف کی حمایت حاصل کرنے میں حکمران اتحاد کی ناکامی کی وجہ سے قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کے روز ’آئینی پیکج‘ پر غور کیے بغیر ملتوی کر دیا گیا۔

حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ تعداد اور اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔

مجوزہ ترمیم سے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل ہونے اور عدلیہ سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن میں ضم کرنے کی توقع ہے۔

اجلاس کے بعد اسد قیصر کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے ترمیم کے مسودے کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔ اسد قیصر نے فضل الرحمان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان، سابق صدر عارف علوی اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی اس موقع پر موجود تھے۔

ایک صحافی کے سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو فراہم کردہ مجوزہ ترامیم کا مسودہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم آئینی پیکج کی حمایت کرتے تو یہ عوام کے اعتماد کے ساتھ سب سے بڑی خیانت ہوتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ تجویز کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے اس کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ مختلف افراد کو مختلف تجاویز دی گئی تھیں۔

ان کے مطابق حکومت فی الحال دعویٰ کر رہی ہے کہ ان کے پاس کوئی تجویز نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس جو مسودہ تھا وہ کس نے جمع کرایا تھا۔

Comments

200 حروف