ایک ہفتہ قبل میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قیادت کی طرف سے ان کے شہر مدعو کیا گیا تاکہ یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی ) کے پیٹرن ان چیف کی حیثیت سے فیصل آباد، پاکستان کے مانچسٹر کی صنعتی تباہی کے حوالے سے حکومتی حکام کے ضمیر کو جھنجوڑ سکوں۔
میرے ہمراہ ڈاکٹر گوہر اعجاز، کاروباری کمیونٹی کے رہنما بھی تھے۔ اس موقع پر فیصل آباد جانے والے دیگر ایف پی سی سی آئی کے نمائندوں میں لاہور سے ذاکر اعجاز اور مومن ملک، کراچی سے احمد چنائے، کوئٹہ سے دارو خان، اور دادو، سندھ سے میاں عبد الحق جتوئی موجود تھے۔
فیصل آباد چیمبر میں کاروباری رہنماؤں کا سمندر جمع ہوگیا، سب اپنے مسائل کے اظہار کیلئے بے تاب تھے۔ چیمبر کے صدر ڈاکٹر خرم طارق نے جب اسٹیج سنبھالا تو انہوں نے فیصل آباد کی صنعتی زوال کی ایک مدھم تصویر پیش کی، جس سے کوئی شک نہیں رہا کہ شہر شدید مایوسی کی حالت میں ہے۔
اس کے بعد، ہر اسپیکر جسے موقع ملا، نے شہر میں صنعتی تباہی کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے بیان کیا، ہر نقطہ نظر سچائی کا تاثر دیتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں کئی بڑے صنعتی خاندانوں نے کئی مہینوں سے اپنے صنعتی یونٹس بند کردیے ہیں۔
بحران اتنا شدید ہو گیا ہے کہ اب بڑے سے بڑے اسکریپ ڈیلرز بھی ناکارہ مشینری اٹھانے سے انکار کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ شہر کے گوداموں میں مزید جگہ موجود نہیں ہے۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یہ شہر کبھی پاکستان کا صنعتی مرکز تھا، جس کی وجہ سے اسے ’پاکستان کا مانچسٹر‘ کہا جاتا تھا۔
ایک فیکٹری کے مالک نے انکشاف کیا کہ وہ بجلی کے بل میں نمایاں اضافے، جو کہ 500,000 روپے سے بڑھ کر 800,000 روپے ہو گیا تھا، کے باوجود اپنے کاروبار کو چلانے میں کامیاب رہا۔ تاہم، جب ان کا بجلی کا بل 2.5 ملین روپے تک پہنچ گیا، تو انہیں اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جو کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے صنعتوں پر پڑنے والے منفی اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔
جب پاور لوم مالکان نے اپنے کہانیاں سنائیں تو حاضرین واضح طور پر متاثر دکھائی دیے۔
چیمبر اراکین نے ایک خوفناک تصویر پیش کی، چیمبر اراکین کے مطابق شہر وسیع پیمانے پر بے روزگاری اور بھوک کا سامنا کررہا ہے جس سے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں بھی پریشان کن حد تک اضافہ ہورہا ہے۔
ایک سرد حقیقت کے طور پر، اب اسٹریٹ کرمنلز محض چند پیسوں کے خاطر قتل کرنے کو تیار ہیں، کیونکہ انسانی زندگی کی قیمت اقتصادی مایوسی کے سامنے مسلسل تنزلی کا شکار ہے ۔
ایک مل مالک نے دل دہلا دینے والے واقعے کا ذکر کیا جو مہینے کے ابتدا میں پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک صبح جب وہ اپنے مل پہنچے، تو انہوں نے دیکھا کہ تقریباً 100 کارکنان مرکزی دروازے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کارکنوں نے پچھلے دن اپنی ماہانہ تنخواہیں وصول کی تھیں، لیکن 45 کارکنوں کو اپنے گاؤں واپس جاتے وقت لوٹ لیا گیا تھا۔ کارکن اس لئے احتجاج کررہے تھے کیونکہ ان کے پاس اپنے گھر میں راشن کے لئےپیسے بھی نہیں تھے ۔
مل مالک کے مطابق انہوں نے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی لیکن ایک مہینہ گزرجانے کے باوجود ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
صورتحال نے تاریک موڑ اختیار کر لیا ہے، ڈاکو اب کھلے عام راستے بلاک کر کے شہریوں کو لوٹ رہے ہیں۔ ارد گرد کے دیہی علاقوں کے مزدور خاص طور پر غیر محفوظ ہیں، لوٹ مار اور چھیننا جھپٹی کی کارروائیاں روزمرہ کا خطرہ بن چکی ہیں۔ پنجاب آئی جی کا خصوصی دورہ فیصل آباد کوئی قابل ذکر نتائج نہیں دے سکا، جس سے شہر کے رہائشی ان مجرمانہ عناصر کے رحم و کرم پر ہیں۔
چیمبر اراکین نے کہا کہ صنعتوں کی بندش سے بے روزگاری کے طوفان نے جنم لیا ہے، جس سے مایوس افراد اسٹریٹ کرائمز کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت آئی پی پیز کی گرفت سے آزاد نہیں ہوتی تو شہر انارکی میں مبتلا ہوجائے گا۔
میں نے چیمبر اراکین کے ساتھ اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے افسوس کا اظہارکیا اور کہا کہ حکومت کو یہ اطلاع دینا دل دہلا دینے والا ہے کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے فیصل آباد میں غیر معمولی تعداد میں فیکٹریاں – 100 سے زائد – اپنے کام کو بند کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں، جو کبھی صنعتی سرگرمیوں سے پروان چڑھتا تھا۔
صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، بینک گدھ کی طرح حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں، بند شدہ یونٹس کی انتظامیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ نتیجتاً، کئی فیکٹری مالکان شاید اپنے یونٹس کی بندش تسلیم کرنے سے گریز کر رہے ہیں، تاکہ بینک اہلکاروں کی جانب سے ذلت اور ہراسانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میں ان مزدوروں کی حالتِ زار پر شدید پریشان ہوں جنہوں نے اپنی روزی روٹی کھودی ہے۔
وہ اپنے حالات کیسے گزار رہے ہیں؟ ان کے خاندان بغیر مستقل آمدنی کے کیسے زندہ رہ رہے ہیں؟ صورتحال اتنی افسوسناک ہے کہ تعلیم یافتہ افراد اب صرف روزگار حاصل کرنے کے لیے معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ پریشان کن ہے کہ حکومت بحران کی شدت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ حکومت کاروباری برادری کی درخواستوں پر توجہ کیوں نہیں دے رہی؟ ایف پی سی سی آئی کی طرف سے آئی پی پیز کی جعل سازی کو بے نقاب کرنے کی کوششوں کے باوجود، حکومت اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں کیوں سست روی کا مظاہرہ کررہی ہے؟
اب یہ سب جانتے ہیں کہ حکومت آئی پی پیز کو ان کی بیکار صلاحیت کے لئے 2 ٹریلین روپے ادا کر رہی ہے، جو بعد میں بجلی کے بھاری بلوں کے ذریعے عوام سے وصول کی جاتی ہے۔ یہ رقم 7 ارب ڈالر بنتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ادائیگیاں ان آئی پی پیز کو کی جا رہی ہیں جو بجلی بھی پیدا نہیں کررہے ہیں۔
ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت ٹرانسمیشن لائنیں قائم کرنے میں ناکام رہی ہے تو اس کا خمیازہ بجلی صارفین کو کیوں بھگتنا پڑے گا؟ صنعتوں کی نادہندگی کا ذمہ دار کون ہے؟ انہیں بینکوں کے غضب سے کون بچائے گا؟ اور ان مزدوروں کے بارے میں کیا جنہوں نے ان ملوں میں اپنی نوکریاں کھو دی ہیں؟
مایوسی کا احساس فضا میں چھایا ہوا ہے۔ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ۔ فیصل آباد پھٹنے کے قریب ہے، احتجاج اور اسٹریٹ مظاہروں کا امکان ہے۔ وفاقی چیمبر کے پلیٹ فارم سے ہم حکومت سے مداخلت کی درخواست کررہے ہیں اور حالات کو قابو میں لانے کی التجا کررہے ہیں کہ وہ اس صورتحال کی باگ ڈور سنبھالے۔
آخرکار، جب حکومت کے پاس آئی پی پیزمیں 52 فیصد کا نمایاں حصہ ہے، تو وہ اس مسئلے کو فوراً کیوں نہیں حل کررہی؟ کیا حکومت ان کی شرائط پر دوبارہ مذاکرات نہیں کر سکتی؟ کیا انہیں ’ٹیک اینڈ پے‘ کی بنیاد پر چلایا نہیں جا سکتا بجائے ’ٹیک یا پے‘ کے؟ حکومت کا سوچنے کا طریقہ کیا ہے، اور وہ کس کے مفادات کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟
صنعتوں کی بندش حکومتی پالیسی کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے، جس سے لوگ بے روزگار ہورہے ہیں۔ ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے طریقہ کار کو درست کرے، ورنہ صورت حال مزید بگڑ جائے گی، احتجاج ملک بھر میں پھیل جائیں گے اور کنٹرول ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ٹپنگ پوائنٹ قریب ہے، اور صورت حال سنگین ہے۔
Comments