پی پی آئی بی کے باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ حکومت ممکنہ طور پر مقامی بینکوں سے درآمد شدہ کوئلے کے منصوبوں کو تھر کوئلے میں تبدیل کرنے اور کانوں کی توسیع کے لیے مالی معاونت کی درخواست کرے گی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ حال ہی میں پاکستان کے حکام، چینی ماہرین اور اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کے سینئر حکام سمیت 17 افراد کے ساتھ بات چیت میں اس بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا ۔
یہ بات چیت کچھ ہفتے قبل وزیرتوانائی سردار اویس لغاری کی جانب سے ایک رسمی کمیٹی کے قیام سے پہلے کی گئی تھی۔
اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری پاور ڈویژن ون خوشحال خان کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کوئلے کی تبدیلی بجلی کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے، فی یونٹ ایندھن کی ادائیگیوں کو کم کرنے، تھر کول فیلڈز کو بڑھانے، کوئلے کی فی ٹن لاگت کو کم کرنے اور توانائی کے تحفظ کو بڑھانے کے قابل بنانے کیلئے اہم ہے۔
ابتدائی تحقیق جرمنی سے تعلق رکھنے والی کمپنی M/s Fichtner نے کی تھی جس نے پلانٹس کو درآمدی کوئلے سے تھر کے مقامی کوئلے میں تبدیل کرنے کی حمایت کی تھی۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی ٹیم نے عندیہ دیا کہ پاور پلانٹس کی تبدیلی اور کانوں کی توسیع کے لیے CAPEX کو مقامی بینکوں کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی جاسکتی ہے اور اس سے چینی اور موجودہ قرض دہندگان کی حالت متاثر نہیں ہوگی۔ اجلاس میں مزید کہا گیا کہ تھر سے کوئلے کی نقل و حمل کے لیے ریلوے لائن پہلے ہی زیر تعمیر ہے اور مقامی کوئلے پر منصوبوں کی تبدیلی سے قبل تیار ہوجائے گی۔
ذرائع نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا کہ مقامی کوئلے پر منتقلی سے بجلی کی ترسیل میں بہتری آئے گی، پاور پلانٹس کی آمدنی میں اضافہ ہوگا جبکہ صارفین کے لیے ٹیرف بالترتیب 16.4 روپے فی یونٹ سے کم ہو کر 7.03 روپے، سی ایچ ایچ جی سی، پورٹ قاسم اور ساہیوال کے لیے 11.40 روپے فی یونٹ رہ جائے گا۔
حکومت کے تخمینوں کے مطابق، مقامی کوئلے پر منتقلی سے تقریباً 892 ملین ڈالر کی زرمبادلہ کی بچت متوقع ہے جو آئی پی پیز کے منافع کی واپسی اور قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے دستیاب ہوگی، اور کچھ حد تک لیکویڈیٹی کے مسائل کو حل کرے گی؛ علاوہ ازیں، اس تبدیلی سے پاکستان کے بجلی شعبے کو مالی طور پر پائیدار بنانے میں مدد ملے گی۔
چینی جانب سے کہا گیا کہ درآمد شدہ کوئلے پر مبنی پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے، یعنی تھر کوئلے میں تبدیل کرنے پر 15 سے 17 مئی 2024 کو ہونے والی آٹھویں ای پی ای پی میٹنگ میں تفصیل سے بات چیت کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جبکہ تبدیلی کے کئی فوائد ہیں جیسے زرمبادلہ کی بچت اور ٹیرف میں کمی، مگر اس میں تکنیکی مطابقت سمیت کئی پہلو شامل ہیں۔ چینی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ “تبدیلی نے چینی اداروں کو کئی خدشات میں ڈال دیا ہے کیونکہ تھر کوئلہ چینی موجودہ پلانٹس کے آلات کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
چینی فریق کو لگتا ہے کہ فِچٹنر (کنسلٹنٹ) کی جانب سے دیے گئے تخمینوں اور پروجیکٹ اسپانسرز کی جانب سے لگائے گئے تخمینوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ چینی کاروباری اداروں کو تھر کے کوئلے کو استعمال کرنے کے لئے مناسب ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا اور چین کی طرف سے اسٹیک ہولڈرز سے منظوری حاصل کرنا ہوگی کیونکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی فریق نے مزید کہا کہ اس نے 2017 میں دوسری ای پی ای پی میٹنگ کے دوران کوئلے کی نقل و حمل اور ٹرانسمیشن لائن وغیرہ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ چین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگرچہ انہوں نے کوئلے کی تبدیلی پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں ، پھر بھی انہیں امید ہے کہ یہ کامیابی سے ہوگا۔
چینی وفد کے رہنما نے کہا کہ وہ نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن (این ای اے) کو اس سلسلے میں دونوں فریقوں کے خدشات کو حل کرنے کے لئے تجویز دینا چاہتے ہیں۔
یہ تجویز دی گئی کہ چینی کاروباری ادارے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر کوئلے کی منتقلی کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے کوئلے کی نقل و حمل، اصل، معیار، سیکیورٹی وغیرہ کے بارے میں مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی کریں۔
چین نے ماہرین کی سطح پر اس پر مزید تبادلہ خیال کرنے اور کوئلے کی تبدیلی کے بارے میں پاکستانی تجویز کو مزید فروغ دینے کی بھی تجویز دی۔ چین نے تعاون میں توسیع کی اور کہا کہ چینی ماہرین کسی بھی وقت بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ چینی مشترکہ مطالعے کے دوران بھی بات چیت کے لئے جرمن کنسلٹنٹ فچٹنر کو مدعو کرنے کے لئے تیار ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ کوئلے کی تبدیلی کی تجویز پر عمل درآمد میں دونوں فریقوں کے خدشات کو مدنظر رکھا جانا چاہئے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments