سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بدھ کے روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو ہدایت کی کہ وہ اسلامی بینکاری پر تفصیلی بریفنگ فراہم کرے، جب کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اسلامی بینک صارفین سے زیادہ شرح سود وصول کر کے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور محصولات کا اجلاس بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سینیٹرز محسن عزیز، سید فیصل علی سبزواری، اور منظور احمد سمیت متعلقہ محکموں کے سینئر حکام نے شرکت کی۔

کمیٹی نے مرکزی بینک کو دیگر ممالک میں اسلامی بینکاری کے طریقہ کار پر بھی بریفنگ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اسلامی بینکوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی بینک 30 فیصد تک سود وصول کر رہے ہیں جبکہ روایتی بینک تقریباً 20 فیصد چارج کر رہے ہیں۔

کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ انہیں کئی ایسے کیسز موصول ہوئے ہیں جہاں اسلامی بینک غیر معمولی شرح سود وصول کر رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کمیٹی کو بتایا کہ فی الحال اسلامی بینکوں کا حصہ صرف 25 فیصد ہے جبکہ روایتی بینکوں کا حصہ 75 فیصد ہے۔

کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ تقریباً 14 ملین غیر فعال بینک اکاؤنٹس میں 97 ارب روپے پڑے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے غیر فعال اکاؤنٹس کو مستقل طور پر بند کرنے کی مدت کو 10 سال سے بڑھا کر 15 سال کرنے کی تجویز پیش کی، جسے کمیٹی نے منظور کر لیا۔

کمیٹی نے اسلامی بینکاری کے طریقوں میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں پر بھی بات چیت کی، جس پر چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے الزام لگایا کہ اسلامی بینکاری میں منافع کی شرح روایتی بینکاری سے زیادہ ہے۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک سے اسلامی بینکاری کے طریقوں پر تفصیلی بریفنگ طلب کی۔

کمیٹی نے ”ڈیپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن ترمیمی بل، 2024“ کا جائزہ لیا اور اسے منظور کیا۔

اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین نے بل پر تفصیلی بریفنگ دی۔ نئے ترمیم کے تحت جمع کنندگان کو5 لاکھ روپے تک کے رقوم کے لیے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا، جو پہلے کی حد ڈھائی لاکھ روپے سے بڑھا دی گئی ہے۔

ڈاکٹرعنایت حسین نے بتایا کہ اگرچہ مائیکرو فنانس بینک اس وقت بل میں شامل نہیں ہیں، تاہم مستقبل میں ترمیم کے ذریعے انہیں بھی تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جمع کنندگان کے تحفظ میں اضافے کی وکالت کی ہے۔

ڈاکٹر عنایت حسین نے انکشاف کیا کہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ کے اراکین کو ہر میٹنگ کے لیے 75 ہزار روپے ملتے ہیں، جبکہ دیگر بینکوں میں یہ فیس 50 یزار روپے سے زیادہ ہے۔

سینیٹر محسن عزیز نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ایسے مالیاتی مراعات بینکاری شعبے میں ملازمتوں کی کشش میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

کمیٹی نے ”بینکنگ کمپنیز (ترمیمی) بل، 2024“ کا بھی جائزہ لیا، جس میں اسلامی بینکاری کے لیے دفعات شامل ہیں۔

ڈاکٹر عنایت حسین نے زور دیا کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری عالمی معیارات کے مقابلے میں سخت ضوابط کے مطابق ہے اور نوٹ کیا کہ آئی ایم ایف نے دسمبر تک تجارتی اور مائیکرو فنانس بینکوں کے لیے یکساں ریگولیٹری فریم ورک کی تجویز دی ہے۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے بیرونی ممالک کی مشترکہ سرمایہ کاری کمپنیوں کے حکومتی پیپرز میں سرمایہ کاری پر خدشات کا اظہار کیا اور وزارت خزانہ سے اس مسئلے کو حل کرنے کی اپیل کی۔

انہوں نے ملکی مارکیٹوں پر بیرونی اثرات سے بچنے کے لیے ایسی سرمایہ کاری پر پابندی کی بھی تجویز دی ۔

سینیٹ کمیٹی نے ڈیپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن ترمیمی بل، 2024، اور بینکنگ کمپنیز ترمیمی بل، 2024، دونوں کو منظور کر لیا۔

اجلاس کا اختتام اسلامی بینکاری میں شفافیت اور ریگولیٹری نگرانی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت کے مطالبے پر ہوا۔

خزانہ کمیٹی کے چیئرمین نے وزارت خزانہ کو یہ وضاحت کرنے کی بھی ہدایت کی کہ صوبائی حکومتیں برآمدات پر تین فیصد ٹیکس کیسے عائد کر سکتی ہیں: کیا صوبائی حکومتیں برآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کی مجاز ہیں؟۔

Comments

200 حروف