جونی مچل کا ایک مشہور گانا ہے جو کہ پاکستان کی معاشی صورتحال سے مطابقت رکھتا ہے۔ پاکستان کا انحصار اسٹینڈ بائی کریڈٹ پر ہے۔ اور اب یہ 24 ویں بار ہمارے قرض دہندگان کی طرف سے ایک بار پھر مسلط کردہ مالیاتی اصول ہے: ”سرکل گیم“ یعنی افراط زر کو کم کرنے کے لئے جبری شرح سود۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک (ایس بی پی) اس سے دستبردار ہو جائے اور رعایتی شرح سود کو کم کر کے 14 فیصد کر دے۔

رواں برس شرح سود میں 2 بار خوش آئند کمی کے باوجود 19.5 فیصد شرح سود پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس سے ترقی کی حامی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے اور قرض لینے والوں پر ناقابل برداشت بوجھ پڑ رہا ہے جس سے پاکستان میں زیادہ تر درمیانے سے بڑے کاروباری ادارے اور وفاقی حکومت متاثر ہورہے ہیں۔ سود کی ادائیگیوں نے عوام کی خدمت کرنے کیلئے ریاست کی صلاحیت ختم کردی ہے۔

2024-25 میں سرکاری اخراجات میں سب سے زیادہ دفاع پر نہیں لگائے گئے بلکہ مالی سال 2024-25 کے لیے سود کی ادائیگیاں 2 ہزار 122 ارب روپے کے دفاعی اخراجات سے 460 فیصد زیادہ ہیں۔

پاکستان میں افراط زر تاریخی طور پر پیسے کے بہاؤ میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ تاہم، قدر میں کمی اور اس کے نتیجے میں لاگت میں اضافے کے دباؤ اور بیرونی توانائی کی قیمتوں کے جھٹکے اگر زیادہ اہم خرابیاں نہیں تو برابر ہیں۔ چونکہ صارفین کیلئے کوئی مالی اعانت نہیں جس پر بات کی جاسکے، سود کی شرحوں کے حوالے سے طلب بھی غیر لچکدار ہے۔ حکومت کا قرض بھی کچھ اس طرح ہی ہے۔

شرح سود میں اضافہ پاکستان میں افراط زر پر قابو پانے میں غیر موثر ہے۔ اس سے صرف ان بینکوں کو فائدہ ہوتا ہے جنہوں نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے مقرر کردہ بلند شرح سود پر حکومت کو قرض دے کر غیر معمولی منافع حاصل کیا ہے اور نجی شعبے کو قرض دینے پر مجبور کیا ہے۔

کاروباری اور اقتصادی امور کے ماہر صحافی خرم حسین نے افراط زر میں جاری اضافے کے ذرائع کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ جون 2020 کے بعد سے حکومت نے ری فنانس سہولیات اور کم شرح سود کے ذریعے کم از کم ایک چوتھائی صدی کے دوران معیشت میں گردش کرنے والی رقم کی مقدار میں سب سے زیادہ اضافہ کیا۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں، اسٹیٹ بینک نے دعویٰ کیا کہ معیشت پر لاگو ہونے والا مالیاتی محرک جی ڈی پی کے 5 فیصد کے برابر ہے۔ پیسے کی چھپائی بلا روک ٹوک جاری رہی۔

ہائبرڈ حکومت کے تین مخصوص اقدامات نے اس تباہی میں کردار ادا کیا۔ سب سے پہلے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے نہ ختم ہونے والی چھوٹ تھی۔ دوسرا 20-2019 میں ’ہاٹ منی‘ ڈالر کی آمد اور ان کا حد سے زیادہ اخراج تھا۔ اپریل 2020 سے مئی 2021 کے درمیان عارضی اقتصادی ری فنانس سہولت (ٹی ای آر ایف) نے کارپوریٹ سیکٹر کو 5 فیصد سالانہ شرح پر 628 ارب روپے 10 سال کے لیے 2 سال کی رعایتی مدت کے ساتھ فراہم کیے۔

جب اسٹیٹ بینک سے براہ راست قرض لینا ممکن نہیں تھا تو حکومت نے ری فنانس اور پھر نجی بینکوں (او ایم او) سے قرض لینے کا سہارا لیا۔ جنوری 2022 میں اسٹیٹ بینک نے نجی بینکوں کے 6500 ارب روپے کے قرض کی اطلاع دی جو کہ وسیع رقم کا تقریبا 23 فیصد ہے۔ تباہی مزید پھیل گئی۔ اگست 2018 سے مارچ 2022 تک کی مدت کے دوران حکومت نے مرکزی حکومت کے قرض کو 31 جولائی 2018 تک 24690.4 ارب روپے سے تقریبا دوگنا کرکے 31 مارچ 2022 کو 43012.7 ارب روپے کر دیا۔

کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) نومبر 2021 میں دوہرے اعداد و شمار تک پہنچ گیا اور لگاتار بڑھتا رہا۔ اسٹیٹ بینک نے دسمبر 2021 میں رعایتی شرح سود میں 250 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کا اضافہ کیا۔ نومبر 2021 کے بعد کے بارہ ماہ میں شرح سود میں 875 بی پی ایس کا اضافہ کیا گیا۔ اس کے بعد کے چار مہینوں میں ان میں مزید 500 بی پی ایس کا اضافہ کیا گیا۔ خرم حسین لکھتے ہیں کہ ’اسٹیٹ بینک اب ایک ہاتھ سے سسٹم میں نقد رقوم داخل کر رہا ہے جبکہ دوسرے ہاتھ سے اسے ختم کرنے کا کام کر رہا ہے۔

قرض کے بوجھ تلی دبی حکومت نے قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قرضے لیے جو بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے بڑھ رہا تھا۔ سیلاب کی طرح پیسوں کی چھپائی کا استعمال کیا گیا۔ شرح سود زیادہ تھی، افراط زر بلند رہی اور پاکستان کی پالیسی کی ساکھ خراب ہوئی۔

جب تک نگران حکومت نے 2023 کے موسم خزاں میں غیر معمولی، غیر معاشی ذرائع سے پاکستانی روپے کو مستحکم نہیں کیا مسلسل بلند شرح سود افراط زر کو کم کرنے میں ناکام رہی۔ حقیقت میں اس کے برعکس ہوا۔ پروفیسر کرسٹوفر سمز نے اس رجحان کو جلد سامنے آجانے والی غلطیوں کے طور پر بیان کیا ہے۔

2023 میں جان کوچن کا یک موضوعی رسالہ ”دی فسکل تھیوری آف پرائس لیول“ پروفیسر سمز کے اس نتیجے پر مبنی ہے: ”مالیاتی پالیسی افراط زر کی شرح میں تبدیلی کے لئے بنیادی ٹرانسمیشن میکانزم یا بنیادی ذریعہ ہوسکتی ہے“۔ پروفیسر کوچن کا استدلال ہے کہ افراط زر پیدا کرنے میں سرکاری قرض پیسے کی فراہمی کے برابر اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ “قیمتیں اس وقت تک ایڈجسٹ ہوتی ہیں جب تک کہ پیسے سمیت تمام سرکاری قرضوں کی حقیقی قدر موجودہ اور مستقبل کے حکومتی سرپلس کی موجودہ قدر کے برابر نہ ہو جائے۔ دوسرے طریقے سے قیمتوں کو ایڈجسٹ کیا جائے تاکہ سرکاری قرضوں کی اصل قدر ٹیکسوں کے کم خرچ کی موجودہ قدر کے برابر ہو۔ جب عوام حکومت سے اپنے قرضوں کی مکمل ادائیگی کی توقع نہیں رکھتے تو افراط زر بڑھ جاتی ہے۔

پروفیسر کوچن کی وضاحت پاکستان کے لیے لکھی جا سکتی تھی: حقیقی شرح سود میں اضافہ – افراط زر کے مطابق ایڈجسٹ کیے گئے قرضوں کی لاگت – کا مطلب ہے کہ حکومت کو اپنے قرضوں کی ادائیگی پر زیادہ خرچ کرنا ہوگا۔ یہ اضافی مالی بوجھ افراط زر ہے۔ اس کے برعکس کم حقیقی شرحیں قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات کو کم کرتی ہیں اور افراط زر کی کمی کے طور پر دیکھی جاتی ہیں. یہ نتیجہ مالیاتی اصول کے مکمل طور پر اختلاف رکھتا ہے۔

یہ نظریہ ایک انتہائی معقول نتیجہ اخذ کرتا ہے: جب اپنے قرضوں کی ادائیگی کی بات آتی ہے تو حکومتوں کو اپنی ساکھ برقرار رکھنی چاہئے۔ جب عوامی قرضے مستقبل کی ٹیکس وصولیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو جاتے ہیں تو توقع کی جاتی ہے کہ حکومت اضافی واجبات کو بڑھا دے گی۔ قیمتوں کی سطح ان افراط زر کی توقعات میں تبدیلیوں کے مطابق چلتی ہے۔ مرکزی بینک ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھا کر افراط زر کو نہیں روک سکتے۔ ایگزیکٹو برانچ کو کھاتوں کو متوازن رکھنے کے لئے پوری طرح سے عہد کرنا چاہئے۔

ملٹن فریڈمین نے کہا، “افراط زر ہمیشہ اور ہر جگہ ایک مالیاتی رحجان ہے۔ پروفیسر کوچرن ملٹن فریڈمین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انہیں مسترد نہیں کرتے۔ ان کا ماڈل اس بات پر زور دیتا ہے کہ افراط زر پر قابو پانے کے لئے مالیاتی اور مالی ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مرکزی بینک عارضی طور پر افراط زر کے دباؤ کو کم کرسکتے ہیں لیکن حکومتوں کو بھاری بوجھ اٹھانا ہوگا۔ دوسرا کوچرن کا کہنا ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول میں لانے کے لئے مرکزی بینکروں کو افراط زر کی موجودہ شرح سے زیادہ شرح سود بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یہ بات موجودہ حکومت کے کانوں میں موسیقی کی طرح گونجنی چاہئے۔ ہر ایک فیصد (100 بی پی ایس) جس کے ذریعے ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی کی جاتی ہے وفاقی حکومت تقریبا ایک حساب سے 250 ارب روپے کی بچت کرے گے۔ ڈسکاؤنٹ کی شرح کو موجودہ 19.5 فیصد سے کم کرکے 14 فیصد کرنے سے بجٹ میں 1275 ارب روپے کمی آئی گی۔

اضافی 1275 ارب روپے رواں مالی سال کے ترقیاتی پروگرام کو دوگنا کر سکتے ہیں، بجلی کے گردشی قرضے کو آدھا کر سکتے ہیں، بجٹ خسارے کو کم کر سکتے ہیں، یا بیشتر تر صارفین کے دلوں کے قریب ہوکر بجلی کے بلوں میں خاطر خواہ ریلیف فراہم کرسکتے ہیں۔ شرح سود میں کمی سے کاروباری اداروں پر مالی بوجھ کم ہوگا اور نئی سرمایہ کاری میں ایک بڑی رکاوٹ دور ہوگی۔

11.1 فیصد کنزیومر پرائس انڈیکس اور 19.5 فیصد ڈسکاؤنٹ ریٹ کے درمیان 8.4 فیصد کا فرق حد سے زیادہ محتاط اور معیشت کے لئے نقصان دہ ہے جسے افراط زر کی توقعات کو ختم کرنے کے لئے ایک جھٹکے کی ضرورت ہے۔ 14 فیصد کی رعایتی شرح اب بھی ایک خلا چھوڑتی ہے جسے افراط زر میں مزید کمی کی صورت اور بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو غیر منظم مالیاتی اصولوں کے جال میں پھنسنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئیے سرکل گیم کو ختم کریں اور نئی ملازمتوں اور معاشی ترقی کی طرف جرات مندانہ خیالات اور جرات مندانہ عمل درآمد کی راہ پر چلیں۔

Comments

200 حروف