ون لنک (پرائیوٹ) لمیٹڈ نے اتوار کے روز کہا کہ پاکستان میں آٹومیٹڈ ٹیلر مشین (اے ٹی ایم) اور آن لائن بینکنگ ایکو سسٹم پر سائبر حملوں کا کوئی خطرہ نہیں دیکھا گیا ہے اور مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ”غلط پیغام“ پھیلایا جارہا ہے۔

11 بینکوں کے کنسورشیم کی ملکیت ون لنک نے اپنی پریس ریلیز میں کہاکہ یہ اعلامیہ عام لوگوں کو آگاہ کرنے اور مختلف واٹس ایپ گروپوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلائے جانے والے جھوٹے پیغام سے پیدا ہونے والے خوف کو دور کرنے کے لئے ہے جس میں لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں اے ٹی ایم اور آن لائن بینکنگ استعمال کرنے سے گریز کریں۔

ون لنک نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ دھوکہ دہی پر کوئی توجہ نہ دیں اور کسی بھی رہنمائی کے لئے اپنے بینکوں سے مشورہ کریں۔

بیان کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) پاکستان کے مالیاتی بنیادی ڈھانچے اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ایکو سسٹم کی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے بینکوں اور ون لنک کے ساتھ فعال طور پر کام کر رہا ہے، اور سخت آئی ٹی اور سیکورٹی گائیڈ لائنز کی تعمیل کو یقینی بنا رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اب تک اس تناظر میں اے ٹی ایم اور آن لائن بینکنگ ایکو سسٹم پر کوئی سائبر خطرہ نہیں دیکھا گیا ہے اور مالیاتی خدمات کی صنعت پہلے کی طرح چوکس ہے۔

اسی طرح کا خوف 2017 میں ’واناکری رینسم ویئر‘ سائبر حملے کے دوران سامنے آیا تھا، جس میں مائیکروسافٹ ونڈوز مشینوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں بینکوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی مشینیں بھی شامل تھیں۔

تاہم پاکستان کے بینکنگ سیکٹر نے 2017 میں ان حملوں کے خلاف کامیابی سے دفاع کیا۔

عوامی آگاہی کے لیے پریس ریلیز میں کچھ عمومی اصولوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن پر عمل کیا جانا چاہیے جیسے پیمنٹ کارڈ یا ذاتی اور مالی معلومات جیسے کارڈ نمبر، پن، او ٹی پی، یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ کسی کے ساتھ شیئر نہ کرنا۔

اے ٹی ایمز، برانچوں یا آن لائن بینکنگ کے دوران اپنے آس پاس کے ماحول سے باخبر رہیں اور مشکوک سرگرمیوں کی فوری اطلاع دیں۔

مرکزی بینک نے بار بار اپنے وابستہ اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل فریم ورک کو اپنائیں۔ ڈیجیٹلائزیشن کو آگے بڑھانے سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں ، جن میں بلیک اکانومی کو روکنا اور زیادہ شفاف دستاویزی معیشت کے ذریعے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا شامل ہے۔

تاہم، ڈیجیٹلائزیشن اپنے چیلنجوں کے ساتھ آتی ہے، جس میں سائبر سیکورٹی کے خطرات، ٹیکنالوجی سے آگاہی کا خلا، صارفین کی تعلیم کی ضروریات، اور پالیسی کی خامیاں شامل ہیں.

گزشتہ ماہ ایک سائبر سیکیورٹی کمپنی نے پاکستانی شہریوں کو مشورہ دیا تھا کہ پبلک وائی فائی نیٹ ورکس کو صرف اس وقت استعمال کیا جانا چاہیے جب ان اپنی سیکورٹی کا معاملہ بہت زیادہ ضروری ہو۔

ماہرین نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ایک بار پبلک وائی فائی نیٹ ورکس کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد ، ذاتی معلومات جیسے سوشل میڈیا لاگ ان ، بینکنگ کی تفصیلات اور ای میل ایڈریس کیلئے ہیکنگ اور غلط استعمال کے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں۔

مزید برآں، پاکستانی موبائل فون صارفین کی ڈیجیٹل شناخت کے تحفظ کے لئے فون نمبروں کی حفاظت سے متعلق کچھ سخت ہدایات پر عمل کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔

سائبر سیکیورٹی کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ موبائل فون صارفین کی اہم ذاتی اور مالی معلومات تک غیر مجاز رسائی سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔

دریں اثنا پاکستان اگلے سال تک ’نیشنل سائبر سیکورٹی اتھارٹی‘ قائم کرنے کے لئے تیار ہے اور اداروں کے لئے جولائی 2028 سے سیکیورٹی تصدیق شدہ بنیادی ڈھانچے کو تعینات کرنا لازمی بنا دے گا تاکہ سرحدوں سے باہر سے قومی اداروں اور نجی تنظیموں پر ڈیٹا چوری اور سائبر حملوں کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔

گزشتہ ماہ ٹوٹل کمیونیکیشنز کے زیر اہتمام ’انفوسیک 2024‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل/ ہیڈ نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سی ای آر ٹی) ڈاکٹر حیدر عباس نے کہا کہ نیشنل سی ای آر ٹی کو 2024 یا اگلے سال نیشنل سائبر سیکیورٹی اتھارٹی آف پاکستان میں تبدیل کر دیا جائے گا۔

ملٹی نیشنل سائبر سکیورٹی اور اینٹی وائرس فراہم کنندہ کیسپرسکی کے مطابق 2022 کے مقابلے میں 2023 میں پاکستان میں مجموعی طور پر سائبر خطرات کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔

کیسپرسکی نے کہا کہ اس نے 2023 میں پاکستان میں 16 ملین سائبر حملوں کو ناکام بنایا۔

Comments

200 حروف