امریکی خلا باز نیل آرمسٹرانگ نے جب پہلی بار چاند کی سطح پر قدم رکھا تو کہا کہ یہ انسان کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے، انسانیت کے لیے ایک بڑی چھلانگ ہے۔ مجھے یہ تاریخی بیان یاد اس وقت یاد آتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ایک نیزہ آسمان کی بلندیوں کو چھوتاہے اور پھر اتنے فاصلے پر جا اترتا ہے جو اس سے پہلے کبھی ہوا ہی نہیں۔

اس کیلئے میری جانب سے ترجمانی ”ارشد کی چھوٹی تھرو مگر پاکستانی کھیلوں کے لئے ایک بڑی چھلانگ“ ہوگی۔ ایک نوجوان نے اپنے عزم اور غیر متزلزل جذبے سے نہ صرف جیت کے اسٹینڈ پر اپنا جائز مقام حاصل کرنے کے لئے نیزہ پھینکا بلکہ اچانک پاکستانی کھیلوں میں ایک نئی روح پھونک دی، ہماری کرکٹ ٹیم کی خراب اور مایوس کن کارکردگی کے بعد چہار سو مایوسی تھی۔

اس نوجوان کی تاریخی کامیابی نے بلا شبہ ثابت کر دیا کہ اس ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اور ہمارے درمیان کھیلوں کے میدان میں جو کوئی بھی مقام حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے وہ ذاتی مفادات، بیوروکریٹک مداخلت اور جانبداری کا عفریت ہے۔

ارشد نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک نہ صرف کھیلوں کے میدان میں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں ٹیلنٹ سے مالا مال ہے اور اس کے لئے صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ ان نوجوان مرد و خواتین کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی اجازت دی جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موقع ملنے پر وہ ملک کا نام روشن کریں گے اور انہیں بھی اسی طرح اعزازات حاصل ہوں گے جس طرح آج ملک ارشد ندیم کو خراج تحسین پیش کررہاہے۔

ارشد کے بارے میں بہت کچھ شائع اور کہا جا چکا ہے لیکن ہم پنجاب میں ان کے آبائی شہر میاں چنوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ میاں چنوں کی کہانی کئی نسلوں سے منسوب ہے کہ کس طرح اس کا نام ایک صوفی بزرگ بابا میاں چنوں کے نام پر رکھا گیا تھا جو ایک زمانے میں وہاں رہتے تھے۔ بابا میاں چنوں کی وفات کے بعد انہیں یہیں دفن کیا گیا۔ اب دلچسپ حصہ آتا ہے۔

شہر کے نام کے بارے میں ایک شہری افسانہ ہے۔ جیسا کہ کہانی ہے کہ برطانوی حکمرانی کے دوران قابضین نے شہر کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ تمام بورڈز پر نیا نام پینٹ کیا گیا تھا۔ تاہم ایک نامعلوم ہاتھ نے بورڈ کو واپس اصل نام میں تبدیل کر دیا۔ مایوس منتظمین اور قابضین نے بار بار کوشش کی لیکن ناکام رہے نام تبدیل ہوتا رہا اور اس کے بعد سے شہر کا نام ’میاں چنوں‘ ہی رہا۔

ارشد کی دلچسپ فتح اس چھوٹے سے قصبے کی طرف عالمی توجہ مبذول کرانے والا دوسرا موقع ہے۔ پہلا بھارت کی جانب سے حادثاتی طور پر فائر کیا جانے والا برہموس میزائل تھا جو 2022 میں میاں چنوں میں گرا تھا۔ 9 مارچ 2022 کو شام 6 بج کر 43 منٹ پر پاک فضائیہ کے ایئر ڈیفنس آپریشن سینٹر نے بھارتی حدود کے اندر ایک تیز رفتار اڑنے والی چیز پکڑی۔ اپنے ابتدائی راستے سے ہی یہ چیز اچانک پاکستانی حدود کی جانب بڑھی اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور بالآخر شام 6 بج کر 50 منٹ پر میاں چنوں کے قریب گر گئی۔

میاں چنوں کے قریب ہونے والے حادثے میں شہری املاک کو نقصان پہنچا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس نے اس چھوٹے سے معروف پاکستانی قصبے کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنایا لیکن اس طرح نہیں کہ میاں چنوں کے موجودہ ہیرو ارشد ندیم جیسے اسے دنیا کی توجہ میں لائے ہیں اور اس سے تقریبا پریوں کی کہانی کا ماحول پیدا کیا ہے جس نے پاکستان میں نوجوانوں اور بوڑھوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ہے اور دنیا کی توجہ بھی اس شہر پر مرکوز کردی ہے۔

ارشد ندیم اب میاں چنوں میں سب سے زیادہ مشہور پاکستانی ہیں لیکن اس چھوٹے سے قصبے میں بھی مشہور شخصیات اپنے آپ میں موجود ہیں۔ سب سے مشہور شخصیات میں سے ایک پاکستانی اسلامی ٹیلی ویژن مبلغ اور اسکالر مولانا طارق جمیل ہیں، پھر مشہور اسٹینڈ اپ کامیڈین افتخار ٹھاکر ہیں۔ اس کے علاوہ غلام حیدر وائن، پیر محمد اسلم بودلہ، پیر ظہور حسین قریشی اور رانا بابر حسین جیسی معروف سیاسی شخصیات بھی موجود ہیں۔

اولمپکس میں ارشد کی جیت کا سب سے دل کو چھولینے والا پہلو مقابلے میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے نوجوانوں کی دو ماؤں کا رد عمل تھا۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے نیرج چوپڑا، جو کافی عرصے سے ارشد کے خلاف مقابلہ کر رہے ہیں، دوسرے نمبر پر رہے اور انہوں نے چاندی کا تمغہ جیتا۔

نیرج کی والدہ سروج دیوی نے اپنے تبصرے میں کہا کہ وہ اپنے بیٹے کی کارکردگی سے خوش ہیں اور ارشد بھی ان کے اپنے بیٹے کی طرح ہیں۔ اسی طرح کے جذبات کا اظہار ارشد کی والدہ رضیہ پروین نے بھی کیا اور دونوں ایتھلیٹس نے اس کا خلاصہ یہ کہتے ہوئے کیا کہ وہ سادہ گھریلو خواتین ہیں جو اپنے بیٹوں کے دوستوں کو اپنا سمجھتی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے کرکٹ میچ کے برعکس حریفوں پر کوئی توجہ نہیں تھی بلکہ کھیل پر ہی توجہ دی گئی تھی۔ کیا یہ ہمیشہ ایسا ہی ہونا چاہئے؟

Zia Ul Islam Zuberi

The writer is a well-known columnist

Comments

200 حروف