دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید سمیت سابق فوجی افسران کی حالیہ گرفتاریوں پر کسی بھی غیر ملکی حکومت کے بیان کا خیر مقدم نہیں کرتا، واضح رہے کہ پینٹاگون نے اس اقدام کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ اپنی ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ایک سوال کا جواب دے رہی تھیں جب ان سے پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹرک رائیڈر اور ڈپٹی پریس سیکریٹری سبرینہ سنگھ کے بیانات سے متعلق پوچھا گیا جس میں دونوں نے سابق فوجی افسران کی حالیہ گرفتاریوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی ایسے بیان کا خیرمقدم نہیں کرنا چاہتی جس کی کسی غیر ملکی حکومت سے توقع بھی نہیں تھی۔ ایک غیر ملکی حکومت کو پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی حکومت بیان دینے سے گریز کرتی ہے تو وہ صحیح کام کررہی ہے اور حکومت پاکستان کو اس کا خیر مقدم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ بیان پاک فوج کے میڈیا ونگ کی جانب سے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اور تین دیگر ریٹائرڈ افسران کو بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کے تحت حراست میں لیے جانے کے حالیہ اعلانات کے بعد سامنے آیا ہے۔

قطر میں غزہ جنگ بندی مذاکرات کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے بارہا فلسطینی عوام کی نسل کشی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے اور اس تناظر میں اس نے ہمیشہ کسی بھی ایسے اقدام کا خیرمقدم کیا ہے جو امن، مذاکرات اور موجودہ صورتحال کے حل کا باعث بن سکتا ہے ۔

تاہم انہوں نے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مذاکرات کا فریق نہیں ہے لہٰذا ہم ان مذاکرات کی تفصیلات میں مزید اضافہ کرنے یا شیئر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

انہوں نے اسرائیلی قیادت میں سینکڑوں انتہا پسند آباد کاروں کی جانب سے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنے کی بھی شدید مذمت کی۔ اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کی بے حرمتی اور نمازیوں کے حقوق میں رکاوٹ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ اقدام جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ یروشلم میں مقدس مقامات کے تقدس کے خلاف سنگین اور بار بار ہونے والی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے، مسجدالاقصیٰ کے اسلامی کردار کے تحفظ اور فلسطینی عوام کی عبادت کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

جب روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے بارے میں ان سے جواب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان اسے تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے ،انہوں نے اس تنازع کے پرامن حل کے لئے پاکستان کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اقدامات کریں۔

بنگلہ دیش کے سابق وزیر اعظم کو ہٹانے میں پاکستان کے مبینہ کردار کے بارے میں شیخ حسینہ کی پارٹی کے الزامات کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے ان الزامات کو واضح طور پر مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام کسی بھی غیر ملکی مداخلت اور بیرونی لوگوں کے غیر ضروری مشورے کے بغیر اپنے معاملات خود طے کرنے اور اپنے مستقبل کا تعین کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان بھی ترکیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلسطینی عوام کی اسرائیلی نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں مقدمے کی حمایت کرتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے جنوبی افریقہ اور آئی سی جے کی جانب سے نسل کشی کنونشن کی اسرائیلی خلاف ورزی کے حوالے سے دائر کیس کی حمایت کی ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ترکیہ کی جانب سے اس کیس کی حمایت میں دیے گئے بیان کا بھی خیرمقدم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہمارے پاس اس معاملے میں مزید اضافہ کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔

ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ پیش رفت پر گہری تشویش ہے جو اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف غیر قانونی اقدامات اور خطے کے ہمسایوں اور ممالک کے خلاف اس کی مہم جوئی کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان او آئی سی کے اس بیان کی بھی حمایت کرتا ہے جس میں تہران میں حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے جرم پر اسرائیل کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ایران کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں امن کو یقینی بنائے اور اسرائیل کو اس کے اقدامات پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فعال سفارتی مشن ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے تمام پہلوؤں پر رابطوں کا مضبوط تبادلہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کی جانب سے منعقدہ تقریب میں شرکت کی جس میں وزیر ہاؤسنگ ریاض پیرزادہ اور پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی نے شرکت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ شرکت اس ثقافت کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ایک دوسرے کی دعوت کو قبول کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اور سینیٹ سیکریٹریٹ کے لیے حال ہی میں نظر ثانی شدہ ویزا گائیڈ لائنز کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے تصدیق کی کہ وزارت خارجہ نے حکام کو تعارفی خطوط جاری کرنے کے لیے اپنی گائیڈ لائنز پر نظرثانی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جن میں سرکاری عہدیداروں کی جانب سے تعارفی خطوط کا غلط استعمال بھی شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ان نئی ہدایات سے تعارفی خطوط کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

طورخم سرحد پر حالیہ افغان فائرنگ کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز نے اپنے دفاع میں مناسب جواب دیا۔

انہوں نے افغان حکام پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور پاک افغان سرحد پر بلا اشتعال کارروائیوں سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستانی افواج ہمیشہ اپنی سرزمین کا دفاع کریں گی۔ ہم سفارتی ذرائع سے کسی بھی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کی موجودگی کے بارے میں مسلسل اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان حکام سے توقع کرتا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر اور ٹھوس کارروائی کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ ہے۔

Comments

200 حروف