باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ حکومت نے پاکستان الیکٹرک فین مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی ای ایف ایم اے) سے کہا ہے کہ وہ پرانے پنکھوں کو تبدیل کرنے کے لئے اپنا کاروباری منصوبہ شیئر کرے کیونکہ حکومت مالی مشکلات کی وجہ سے اس سلسلے میں کوئی مالی مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
یہ فیصلہ 19 جولائی 2024 ء کو وزارت صنعت و پیداوار کے ایڈیشنل سیکرٹری ون کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کیا گیا جس کا مقصد اس معاملے پر مزید غور و خوض کرنا اور موثر پنکھوں کی مقامی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لئے روڈ میپ تیار کرنا تھا۔
این ای ای سی ایزکے مجوزہ فنانسنگ پلان پر تبصرہ کرتے ہوئے چیئرمین پی ای ایف ایم اے نے بتایا کہ صلاحیت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ مقامی فین انڈسٹری میں سالانہ 6 سے 7 ملین یونٹس کی اضافی صلاحیت موجود ہے اور منصوبے کے پہلے چار سال کے دوران موجودہ صلاحیت منصوبے میں طے شدہ اہداف کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صلاحیت طلب کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ہے اور پختہ طلب کے ساتھ صلاحیت کو بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مقامی فین انڈسٹری فنانشل پلان میں دی گئی اضافی مطلوبہ طلب کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ واحد رکاوٹ ورکنگ کیپیٹل ہے کیونکہ موجودہ صلاحیت کا استعمال تقریبا 40-50 فیصد ہے، سپلائی چین سائیکل 45-60 دن کا ہے اور صلاحیت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لئے فین مینوفیکچررز کو 2-3 گنا ورکنگ کیپیٹل کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم انہوں نے اس بات کی توثیق کی کہ پرانے پنکھوں کو تبدیل کرنے کے لئے فنانسنگ پلان بہت زیادہ قابل حصول ہے۔
فین مینوفیکچررز کو امداد کے طور پر آسان قرضے فراہم کرنے کی اپنی بار بار کی تجویز پر چیئرمین نے واضح طور پر بتایا کہ حکومت مالی امداد فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، فین انڈسٹری کو اپنے وسائل پر انحصار کرنا پڑتاہے اور مقامی صنعت کے لئے قابل عمل منصوبہ فراہم کرنے کے علاوہ پرانے پنکھوں کو تبدیل کرنے کے لئے مالی منصوبے پر تبصرہ فراہم کرنا پڑتا ہے۔
چیئرمین پی ای ایف ایم اے نے پی ای ایف ایم اے ممبران کے ساتھ مالیاتی منصوبے پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے مزید وقت مانگا اور فین انڈسٹری کے اعداد و شمار کے ساتھ تحریری طور پر پی ای ایف ایم اے کی توثیق / کاروباری منصوبہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
فین انڈسٹری کے اعداد و شمار کی دستیابی کے حوالے سے ایف بی آر (کسٹمز) نے بتایا کہ ایس آر او 565(آئی)/2006 کے رعایتی نظام کا استعمال کرنے والے رجسٹرڈ فین مینوفیکچررز کا ڈیٹا اکٹھا کرکے شیئر کیا جائے گا۔ ایف بی آر (سیلز ٹیکس) نے بتایا کہ وہ اپنے پاس موجود فین انڈسٹری کے اعداد و شمار کی فراہمی میں بھی تیزی لائیں گے۔
این ای ای سی اے کے نمائندے نے بتایا کہ انہوں نے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کے ذریعے پورٹل بنانے سے متعلق دستاویزات پاور ڈویژن کو جمع کرائی ہیں جو فنانس ڈویژن کو بجٹ مختص کرنے کے لیے درکار ہیں۔ پاور ڈویژن اس معاملے میں مزید پیش رفت کرے گا۔
تفصیلی غور و خوض کے بعد اجلاس میں مندرجہ ذیل فیصلے کئے گئے۔ (i) پی ای ایف ایم اے فین انڈسٹری کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اپنے وسائل کی بنیاد پر قابل عمل کاروباری منصوبہ فراہم کرے گا۔ اور (ii) ایف بی آر (ایس ٹی اور کسٹمز) اور پی ایس کیو سی اے اپنے پاس موجود فین انڈسٹری کے اعداد و شمار کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔
وزیر توانائی نے حال ہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی کو بتایا ہے کہ ملک میں پنکھوں کیلئے بجلی کی طلب تقریبا 8 ہزار میگاواٹ ہے جو صرف چند ماہ تک محدود ہوتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے نئے پنکھے بنانے کا اعلان کیا تھا اور سابق وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی سینیٹر شبلی فراز نے گجرات میں ایک فیکٹری کا دورہ کیا تھا تاکہ توانائی کی بچت کرنے والے نئے پنکھوں کی تیاری کا جائزہ لیا جا سکے۔
سابق وزیر برائے بجلی خرم دستگیر خان نے بھی اپنی حکومت کی جانب سے بجلی بچانے کے لیے لاکھوں ناکارہ پنکھے تبدیل کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments