پاکستان میں موجود چینی کمپنیوں کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کی تیاری
- دورہ بیجنگ کے دوران پاکستان کے توانائی کے شعبے کے قرضوں کی ازسرنو پروفائلنگ پر بھی بات چیت شروع کر سکتے ہیں، وزیر توانائی و بجلی
وفاقی وزیر برائے بجلی و توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ رواں ماہ ملک میں کام کرنے والے چینی پاور پلانٹس سے کہا جائے گا کہ وہ درآمدی کوئلے کے بجائے تھر ریجن سے کوئلہ استعمال کریں۔
وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کے سربراہ اویس لغاری نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اسلام آباد بیجنگ کے دورے کے دوران پاکستان کے توانائی کے شعبے کے قرضوں کی ازسرنو پروفائلنگ پر بھی بات چیت شروع کر سکتا ہے۔
اویس لغاری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے تجویز کردہ توانائی کے شعبے میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر تبادلہ خیال کرنے والے وفد کا حصہ ہوں گے، جس نے گزشتہ ہفتے جنوبی ایشیائی ملک کے لیے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج پر اتفاق کیا تھا۔
ہمسایہ ملک چین نے پاکستان میں 20 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے توانائی کے منصوبے لگائے ہیں۔
انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ آگے بڑھنے کا ایک اہم مقصد درآمدی کوئلہ استعمال کرنے والی کمپنیوں کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنا ہے۔ اس کا مستقبل قریب میں توانائی اور بجلی کی لاگت پر بہت بڑا اثر پڑے گا۔ لہٰذا یہ ایجنڈے کی سب سے بڑی چیزوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی منتقلی سے اسلام آباد کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہو کر پاکستان میں چینی ملکیت والے پلانٹس کو فائدہ ہوگا جس سے منافع کی واپسی آسان ہو جائے گی اور ڈالر کے لحاظ سے بہتر منافع ملے گا۔
اویس لغاری نے کہا کہ اس تبدیلی سے پاکستان کو درآمدات میں سالانہ 200 ارب پاکستانی روپے (700 ملین ڈالر) سے زیادہ کی بچت ہوسکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ بجلی کی قیمت میں 2.5 پاکستانی روپے فی یونٹ تک کی کمی واقع ہوگی۔
اپریل میں اینگرو کے ماتحت ادارے نے پاکستان کی معروف کوئلہ پروڈیوسر سندھ اینگرو کول مائننگ سمیت اپنے تمام تھرمل اثاثے پاکستان کی لبرٹی پاور کو فروخت کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ لبرٹی نے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے بحران اور اس کے مقامی کوئلے کے ذخائر کی صلاحیت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر نے توانائی کے قرضوں کی ازسرنو پروفائلنگ کے حوالے سے چین کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کا پاور سیکٹر بجلی چوری کی بلند شرح اور ڈسٹری بیوشن خسارے کا شکار ہے جس کے نتیجے میں پوری پروڈکشن چین میں قرضے جمع ہو رہے ہیں۔
اویس لغاری کے بقول حکومت ”گردشی قرضوں“ کو کم کرنے کے لئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد کر رہی ہے تاکہ- بجلی کے شعبے میں سبسڈی اور واجب الادا کی عدم ادائیگی کے سبب –عوم کے ذمہ واجبات کو سالانہ 100 بلین پاکستانی روپے (360 ملین ڈالر) تک کم کیا جائے۔
گزشتہ سال آئی ایم ایف کی جانب سے دیے گئے بیل آؤٹ معاہدے سے غریب اور متوسط طبقے کے گھرانے متاثر ہوئے ہیں جس میں اپریل میں ختم ہونے والے فنڈنگ پروگرام کے حصے کے طور پر بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی شامل تھا۔
پاکستان میں بجلی کے سالانہ استعمال میں 16 سال میں پہلی بار مسلسل کمی متوقع ہے کیونکہ موسم گرما کے درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافے کے باوجود زیادہ ٹیرف گھریلو کھپت کو کم کرتے ہیں، جس سے عام طور پر ایئر کنڈیشننگ اور پنکھے کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ ہم نے گزشتہ یا ڈیڑھ سال میں طلب میں کمی کا رجحان دیکھا ہے اور ہم توقع کر رہے ہیں کہ جب تک ہم بجلی کی قیمت کو معقول نہیں بناتے یہ جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج طلب کم ہونے سے روکنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ بجلی کا فی یونٹ ٹیرف زیادہ مہنگا ہے اس لئے شہری اور دیہی دونوں گھرانے شمسی توانائی جیسے متبادل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
وزیر توانئی نے مزید کہا کہ اس وقت ہمارے پاس تقریبا ایک ہزار میگاواٹ بجلی ہے جو نیٹ میٹرنگ سسٹم اور دیگر کی شکل میں گرڈ میں موجود ہے۔ یہ ایک انتہائی قدامت پسند اندازہ ہے کہ (شمسی) اس وقت گرڈ کے مقابلے میں پانچ سے چھ گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔
Comments