فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کے معاہدوں پر نظرثانی کرے تاکہ ملک کی ڈوبتی ہوئی صنعت کو بچایا جا سکے کیونکہ آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز کی وجہ سے بجلی کے نرخ ناقابل برداشت ہیں۔

ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگون نے سرپرست اعلیٰ یو بی جی ایس ایم تنویر اور دیگر صنعتکاروں کے ہمراہ پیر کو فیڈریشن ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت توانائی کی قیمتیں یا ٹیرف ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ملک میں صنعت کاری کو براہ راست نقصان پہنچا رہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ جب تک توانائی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جاتی صنعت نہیں چل سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی نے اپنی بجٹ تجاویز میں حکومت پر زور دیا کہ وہ بجلی کے نرخوں میں کمی کرے تاکہ ملکی صنعت کو عالمی منڈی میں مسابقتی بنایا جا سکے۔ تاہم حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے بجائے 1250 روپے مقررہ چارجز عائد کر دیے ہیں جس سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 45 ہزار میگاواٹ کی گنجائش کے مقابلے مین ٹرانسمیشن لائن میں صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی آتی ہے تاہم صارفین کو غیر استعمال شدہ بجلی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ ”ہمیں آئی پی پیز کے ساتھ غیر منصفانہ معاہدوں کی وجہ سے کیپیسٹی چارجز میں قیمت کا 56 فیصد ادا کرنا پڑتا ہے“۔

ایف پی سی سی آئی نے پوری تاجر برادری کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں پر نظرثانی کرے بصورت دیگر انڈسٹری مقابلہ کرنے اور زندہ رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔

اس موقع پر ایس ایم تنویر نے کہا کہ فی الحال حکومت کیپسٹی چارجز کی مد میں 2 ٹریلین روپے ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ”حکومت کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ 40 لوگوں کو یا 240 ملین پاکستانی عوام کو بچانا چاہتی ہے“۔

انہوں نے کہا کہ صنعت بجلی کے اس نرخ پر فیکٹری کو فعال رکھنے سے قاصر ہے اور اس نے کام بند کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”زیادہ ٹیرف کی وجہ سے تقریباً 25 فیصد صنعت پہلے ہی بند ہو چکی ہے اور سینکڑوں لوگ آپریشن بند کرنے کے لیے قطار میں ہیں۔“

انہوں نے خبردار کیا کہ یہ بحران ملک میں بے روزگاری میں اضافے اور ملکی برآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی کا باعث بنے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں ٹیکس ریونیو میں بھی کمی آئے گی۔

بجلی کے نرخوں پر نظر ثانی ایک فوری معاملہ ہے اور حکومت کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدام اٹھانا چاہیے، ورنہ ایک بار صنعت بند ہونے کے بعد دوبارہ بحال نہیں ہو سکتی۔ کاروباری برادری طویل مدتی نمو حاصل کرنے اور 2030 کے آخر تک 100 بلین ڈالر لانے کے لیے ملک اور حکومت کی مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے، لیکن اس کے لیے بجلی کے ٹیرف جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پیداواری لاگت کو کم کیا جا سکے تاکہ ہماری صنعت مقابلہ کر سکے۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کرے اور آئندہ دو ہفتوں میں بین الاقوامی فرم سے آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کرائے تاکہ ملکی صنعت کو بچایا جا سکے۔ ایف پی سی سی آئی نے مطالبہ کیا کہ اگر آئی پی پیز نظرثانی اور آڈٹ کے لیے متفق نہیں ہیں تو ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ سے صنعت کے شعبے میں نئی ​​سرمایہ کاری رک گئی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف