ایک اہم پیشرفت میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے 37 ماہ کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے لیے اسٹاف لیول معاہدہ (ایس ایل اے) کر لیا ہے۔

یہ پیش رفت پاکستانی حکام کی جانب سے طویل اور بڑے پروگرام کی درخواست کے جواب میں سامنے آئی ہے تاہم یہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ بورڈ میٹنگ کے لئے کوئی ٹائم لائن جاری نہیں کی گئی تھی۔

لیکن تمام پروگرامز کی طرح اب پاکستان کو بھی آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر معاشی راستے پر چلنا ہوگا۔

آئی ایم ایف کی بیان کردہ کچھ اہم پالیسی اہداف یہ ہیں:

  • پائیدار پبلک فنانس : یہ اصلاحات پر مبنی بتدریج مالی استحکام کے ذریعے کیا جائے گا تاکہ ٹیکس بیس کو وسیع کیا جاسکے اور استثنیٰ کو ختم کیا جاسکے جبکہ اہم ترقیاتی اور سماجی اخراجات کے لئے وسائل میں اضافہ کیا جائیگا۔

  • آنے والے تین سالوں میں زیادہ ٹیکس : پاکستان مالی سال 25 میں جی ڈی پی کے 1.5 فیصد اور پروگرام کے مقابلے میں جی ڈی پی کے 3 فیصد کے اقدامات کے ذریعے ٹیکس محصولات میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

  • رواں مالی سال کے بجٹ اہداف میں عام حکومت کا بنیادی پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 1 فیصد (ہیڈ لائن کے لحاظ سے 2 فیصد) ہوگا۔

  • ریٹیل، ایکسپورٹ اور زرعی شعبوں کو ٹیکس نظام میں مناسب طریقے سے شامل کیا جائے : محصولات کی وصولیوں کو آسان اور منصفانہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کے ذریعے مدد فراہم کی جائے گی۔

  • وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مالی کوششوں کا منصفانہ توازن، جنہوں نے قومی مالیاتی معاہدے پر دستخط کے ذریعے 18 ویں آئینی ترمیم کے مطابق اخراجات کی سرگرمیوں کو دوبارہ متوازن کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

  • اس کے ساتھ ساتھ صوبوں کو اپنی ٹیکس وصولی کی کوششوں کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے جن میں خدمات پر سیلز ٹیکس اور زرعی انکم ٹیکس بھی شامل ہے۔

  • تمام صوبے وفاقی پرسنل اور کارپوریٹ انکم ٹیکس نظام کے ساتھ قانون سازی میں تبدیلیوں کے ذریعے اپنے زرعی انکم ٹیکس نظام کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کے لئے پرعزم ہیں اور اس کا اطلاق یکم جنوری 2025 سے ہوگا۔

۔۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی نوٹ کیا کہ افراط زر کو کم کرنا، فنانسنگ تک رسائی کو گہرا کرنا اور مضبوط بیرونی بفرز کی تعمیر ترقی اور لچک کی کلید ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مانیٹری پالیسی افراط زر میں کمی کی حمایت پر مرکوز رہے گی جس سے حقیقی آمدنی کے تحفظ میں مدد ملے گی، خاص طور پر سب سے کمزور افراد کے لیے۔

جبکہ جھٹکوں سے بچنے اور ذخائر کو بڑھانے کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) لچکدار ایکسچینج ریٹ کو برقرار رکھے گا اور غیر ملکی زرمبادلہ مارکیٹ کے کام کاج اور ایف ایکس آپریشنز کے ارد گرد شفافیت کو بہتر بنانا جاری رکھے گا۔

مالی استحکام کے حوالے سے آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام مالیاتی اداروں کو مضبوط بنانے، کم سرمائے والے بینکوں کو حل کرنے اور کرائسس مینجمنٹ فریم ورک کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ فنانسنگ تک رسائی کو گہرا کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

آئی ایم ایف نے توانائی شعبے کی افادیت کو بحال کرنے اور توانائی کے نرخوں کی بروقت ایڈجسٹمنٹ، لاگت میں کمی کے فیصلہ کن اصلاحات اور پیداواری صلاحیت میں مزید غیر ضروری توسیع سے گریز کے ذریعے مالی خطرات کو کم کرنے پر زور دیا۔

بیان میں کہا گیا کہ حکام ٹارگٹڈ سبسڈی اصلاحات کرنے اور گھرانوں کو دی جانے والی کراس سبسڈیز کی جگہ براہ راست اور ٹارگٹڈ بی آئی ایس پی (بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام) سپورٹ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

نجی شعبے اور برآمدات کو فروغ دینے پر آئی ایم ایف نے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے، تمام کاروباری اداروں کے لیے یکساں مواقع پیدا کرنے اور ریاستی خرابیوں کو دور کرنے پر زور دیا ۔ اس سلسلے میں حکام ایس او ای آپریشنز اور مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے ساتھ نجکاری (سب سے زیادہ منافع بخش ایس او ایز کو دی جانے والی اولین ترجیح کے ساتھ) اور پاکستان سوورن ویلتھ فنڈ اور اس کے آپریشنز کے ارد گرد شفافیت اور گورننس کو مضبوط بنانے کی کوششوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

وہ اسپیشل اکنامک زونز کو دی جانے والی مراعات کو بھی مرحلہ وار ختم کر رہے ہیں، زرعی امدادی قیمتوں اور متعلقہ سبسڈیز کو مرحلہ وار ختم کر رہے ہیں اور نئی ریگولیٹری یا ٹیکس پر مبنی مراعات، یا کسی بھی گارنٹی شدہ منافع سے گریز کررہے ہیں جو سرمایہ کاری کے منظر نامے کو مسخ کر سکتا ہے، بشمول خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے چلائے جانے والے منصوبوں کے لئے۔

آئی ایم ایف کے بیان میں مزید کہا گیا کہ حکام نے انسداد بدعنوانی کے ساتھ ساتھ گورننس اور شفافیت میں اصلاحات کو آگے بڑھانے اور تجارتی پالیسی کو بتدریج آزاد بنانے کا بھی عہد کیا ہے۔

Comments

200 حروف