باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ سیکریٹری آبی وسائل سید علی مرتضیٰ کی سربراہی میں پاکستانی وفد مقبوضہ جموں و کشمیر (آئی آئی او جے کے) میں غیر قانونی طور پر متنازع کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں کے مقام کا دورہ کرنے کے بعد اتوار (30 جون) کو بھارت سے واپس آ رہی ہے۔

پاکستانی وفد (جس میں انڈس واٹر کمشنر/ ایڈیشنل سیکریٹری، وزارت آبی وسائل اور قانونی ماہرین شامل تھے) غیر جانبدار ماہرین اور عالمی عدالت، ہیگ کے ججوں کے ہمراہ تھے جب انہوں نے جاری کارروائی کے حصے کے طور پر بھارت کی جانب مقبوضہ کشمیر میں تعمیر کیے جانے والے متنازع ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں کا تفصیلی دورہ کیا۔

غیر جانبدار ماہر اور ایڈہاک ثالثی عدالت آئی آئی او جے کے میں کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں کی تعمیر پر پاکستان کے اعتراضات کی سماعت کر رہی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر جانبدار ماہرین اور ایڈہاک کورٹ کے ججوں کی ٹیم آزاد جموں و کشمیر میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا بھی دورہ کرے گی۔ اس کیس کی اگلی سماعت 5 جولائی 2024 کو ہیگ (ہالینڈ) کی عالمی ثالثی عدالت میں ہوگی۔

ذرائع کے مطابق بھارتی حکومت نے پاکستانی وفد کو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت میں داخل ے کے لیے ویزا جاری نہیں کیا جو کہ بھارتی یا پاکستانی انڈس واٹر کمشنرز کو سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے ایک دوسرے کے ملک میں داخل ہونے کیلئے معمول کی سرحد ہے۔ وفد 19 جون 2024 کو ہندوستان کے لئے روانہ ہوا اور 30 جون 2024 کو واپس آئے گا۔ بھارتی سفارت خانے نے پاکستانی وفد کی روانگی سے ایک روز قبل 18 جون کو ویزا جاری کیا تھا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ اس بار پاکستانی وفد ابوظہبی (یو اے ای) سے نئی دہلی گیا کیونکہ ویزا کے اجراء میں کافی تاخیر ہوئی اور واہگہ سے داخلے پر پابندی عائد تھی۔

پاکستان مغربی دریاؤں میں بہنے والے پانی پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کو سندھ طاس معاہدے 1960 کی خلاف ورزی سمجھتا ہے کیونکہ اس سے نہ صرف دریا کا رخ بدل جائے گا بلکہ پاکستان میں بہنے والے دریاؤں میں پانی کی سطح بھی کم ہوجائے گی۔

اکتوبر 2022 میں، سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کے مطابق، عالمی بینک نے کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس کے سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے درخواست کردہ دو الگ الگ عمل میں تقرریاں کیں۔

دونوں ممالک اس بات پراختلاف رکھتے ہیں کہ آیا ان دونوں ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کی تکنیکی ڈیزائن کی خصوصیات معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ پاکستان نے عالمی بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دونوں ہائیڈرو الیکٹرک پاور منصوبوں کے ڈیزائن کے بارے میں اس کے خدشات پر غور کرنے کے لئے ثالثی عدالت کے قیام میں سہولت فراہم کرے جبکہ بھارت نے دونوں منصوبوں پر اسی طرح کے خدشات پر غور کرنے کے لئے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کا مطالبہ کیا۔

مشیل لینو کو غیر جانبدار ماہر مقرر کیا گیا ہے اور پروفیسر شان مرفی کو ثالثی عدالت کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔

1960 کے معاہدے میں عالمی بینک کو بھارت اور پاکستان کے درمیان آبی تنازعات میں ثالث کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ بینک نے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج میں بہنے والے پانی پر کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ بھارت کو اجازت تھی کہ وہ مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا پانی استعمال کر سکتا ہے لیکن اس کا رخ موڑ نہیں سکتا۔

بھارت کا ماننا ہے کہ یہ ’رن آف دی ریور‘ پن بجلی منصوبے ہیں جو نہ تو دریا کا رخ تبدیل کرتے ہیں اور نہ ہی پانی کی سطح کو نیچے کی طرف کم کرتے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف