اپوزیشن کی شدید تنقید کے باوجود قومی اسمبلی نے نئے قرض پروگرام پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مزید بات چیت سے قبل آئندہ مالی سال کے لیے حکومت کا بھاری ٹیکسز سے بھرپور بجٹ جمعہ کو مخصوص ترامیم کے بعد منظور کر لیا ، ٹیکس دہندگان کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔

حکومت نے دو ہفتے قبل ٹیکسز سے بھرپور بجٹ پیش کیا تھا جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ۔

مالی سال 2024-25 کے وفاقی بجٹ کا مجموعی تخمینہ 18.877 ٹریلین روپے ہے -

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں فنانس بل پیش کیا جس کی وزیراعظم شہباز شریف نے توثیق کی تھی۔

منظور شدہ بجٹ میں 12 جون 2024 کو پیش کی گئی اصل تجویز سے کئی ترامیم شامل ہیں ، حکومت نے فنانس بل 2024 میں درج ذیل تبدیلیاں کی ہیں۔

ہائبرڈ گاڑیوں کے لیے ٹیکس کی کم شرح 30 جون 2026 تک جاری رہے گی۔ 1800 سی سی اور 1801 سے 2500 سی سی تک انجن کی گنجائش والی گاڑیوں پر بالترتیب 8.5 فیصد اور 12.75 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) 3 روپے کلو سے بڑھا کر 4 روپے کلو کردی گئی۔

سابقہ فاٹا/پاٹا کے لیے سیلز ٹیکس کے فوائد میں مزید ایک سال کی توسیع کردی گئی۔

برآمدکنندگان اب ایکسپورٹ ٹرن اوور پر پہلے ایک فیصد ٹیکس کے بجائے 29 فیصد کی معیاری کارپوریٹ ٹیکس کی شرح اور قابل اطلاق سپر ٹیکس کے تابع ہوں گے۔

سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد کمانے والے افراد یا ایسوسی ایشن آف پرسنز کو انکم ٹیکس کی رقم پر 10 فیصد سرچارج بھی ادا کرنا ہوگا۔

اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کے باوجود حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر لیوی 60 روپے فی لٹر سے بڑھا کر 70 روپے فی لٹر کردی۔

تاہم وزیر خزانہ نے ایوان کو یقین دلایا کہ اس میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا اور اسے فوری طور پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔

لائٹ ڈیزل آئل اور مٹی کے تیل پر بھی 50 روپے فی لٹر لیوی عائد کی جائے گی جبکہ ہائی آکٹین پر 70 روپے فی لٹر لیوی عائد ہوگی۔

ایوان نے حکمران اتحاد کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کے لیے تجویز کردہ ترمیم کی بھی منظوری دے دی۔

پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ ترمیم کا مقصد ارکان پارلیمنٹ کی مراعات میں اضافہ کرنا ہے۔

اراکین اسمبلی کے لیے سفری الاؤنس 10 روپے سے بڑھا کر 25 روپے فی کلومیٹر کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ارکان پارلیمنٹ کے لیے غیر استعمال شدہ سالانہ ائر لائن ٹکٹیں منسوخ ہونے کے بجائے اگلے سال تک جاری رہیں گی۔

سالانہ ٹریول واؤچرز کی تعداد بھی 25 سے بڑھا کر 30 کردی گئی ہے۔

ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز کے تعین کی ذمہ داری وفاقی حکومت سے متعلقہ ایوان کی فنانس کمیٹی کو منتقل کردی گئی ہے۔

بجٹ کے آغاز پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب خان نے بجٹ 2024-25 کو گروتھ بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لئے سوچی سمجھی حکمت عملی پر مبنی ہے۔

وزیر خزانہ نے وزیر اعظم شہباز شریف کے اس بیان کو یاد کرتے ہوئے کہ ”یہ آئی ایم ایف کا آخری بیل آؤٹ ہوگا“ کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا مقصد حکومت کے محصولات میں اضافہ اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کرکے مالی خسارے کو کم کرنا ہے۔

انہوں نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو 13 فیصد تک بڑھانے کے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا جو اس وقت 9.5 فیصد ہے۔

وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ ملک نے میکرو اکنامک استحکام حاصل کرلیا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ، مالیاتی خسارہ، افراط زر اور زرمبادلہ ذخائر سمیت معاشی اشاریے مستحکم اور قابو میں ہیں ۔ انہوں نے آئندہ مالی سال میں اس معاشی استحکام کو جاری رکھنے کے حکومتی منصوبے کا خاکہ پیش کیا جس کا مقصد ملک کو پائیدار اقتصادی ترقی کی طرف لے جانا ہے۔

انہوں نے جی ڈی پی کے ہدف کو یقینی بنانے کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی تعمیر نو اور ڈیجیٹائزیشن پر بھی زور دیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس نظام سے نان فائلرز کا تصور ختم کردیا جائے گا، جس سے ہر ایک کے لئے ٹیکس ادا کرنا لازمی ہوجائے گا۔

انہوں نے ٹیکس چوری کی روک تھام اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لئے حکومت کے عزم کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا ہے، مالی خسارہ قابو میں ہے، ملک کے زرمبادلہ ذخائر 9 ارب ڈالر ہیں جو دو ماہ کی درآمدات کیلئے کافی ہیں ۔

انہوں نے افراط زر میں نمایاں کمی کو 38 فیصد سے 11 فیصد تک لانے اور غذائی افراط زر کو 2 فیصد پر برقرار رکھنے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔

اسٹیشنری، کتابوں اور طبی آلات پر ٹیکس لگانے پر اپوزیشن کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹنٹ، سرجیکل آئٹمز، کتابیں، قلم، پرنٹنگ اور دیگر اسٹیشنری اشیاء اور سابقہ فاٹا اور پاٹا کے علاقوں میں ایک سال کے لیے ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ معیار پر پورا نہ اترنے والے پیک شدہ دودھ پر ٹیکس چھوٹ نہیں دی جا سکتی، مشکل معاشی حالات کے باوجود تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے ٹیکس چھوٹ دی گئی۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب کا کہنا تھا کہ بجٹ کی تیاری کے دوران متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بالخصوص اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ فنانس بل ملک کو درپیش اہم معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے اور اہم اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مناسب مشاورت کے بغیر اس کا مسودہ تیار کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ اکنامک ہٹ مین نے تیار کیا ہے اور اس سے عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملتا، ہم بجٹ کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس سے ملک میں آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔

قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ایس آئی سی اراکین اسمبلی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا کی استعداد کار بڑھانے کے لیے گزشتہ برسوں میں 590 ارب روپے دیے گئے ہیں۔

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے یاد دلایا کہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں خیبر پختونخوا کو وسائل میں ایک فیصد اضافی دیا گیا تھا، جس پر 2010 میں اتفاق ہوا تھا۔

تاہم انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کے پی میں ابھی تک انسداد دہشت گردی کا محکمہ قائم نہیں کیا گیا ہے۔

بل کی منظوری کے بعد ایوان نے مالی سال 2022-23 اور مالی سال 2023-24 کے لئے بالترتیب 53 اور 25 ضمنی گرانٹس کی منظوری دی۔

ایوان میں ووٹنگ کے بعد مالی سال 2023-24 کے لئے 25 ریگولر اور ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹس کی بھی منظوری دی گئی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر

Comments

200 حروف