مئی 2024 میں بجلی کی پیداوار آٹھ ماہ میں سالانہ بنیادوں پر اضافے کی پہلی ماہانہ ریکارڈنگ تھی کیونکہ گرڈ کی پیداوار 12.2 بلین یونٹ تھی جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 2.2 فیصد زیادہ ہوگئی۔ ایک اعلیٰ درجے کا امید پرست ہی اسے قسمت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے طور پر دیکھ سکتا ہے تاہم سیاق و سباق یہاں کچھ مدد گار ثابت ہورہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق مئی 2024 کم از کم 60 سال کی ریکارڈ شدہ تاریخ میں سب سے خشک اور گرم ترین مہینہ تھا۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اوسط درجہ حرارت میں 8 فیصد اور دن کے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس تناظر میں سالانہ بنیاد پر 2 فیصد اضافہ زیادہ اعتماد پیدا نہیں کرتا۔

خاص طور پر جب یہ نمایاں طور پر کم بنیاد سے آ رہا ہو۔ یاد رہے کہ مئی 2023 میں بجلی کی پیداوار 5 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی تھی اور سالانہ بنیاد پر16 فیصد کم ہو کر 11.9 ارب یونٹ رہ گئی تھی۔ مئی 2024 کی پیداوار اب بھی مئی 2022 کے مقابلے میں 2 ارب یونٹ کم ہے اور مئی 2020 کے مقابلے میں بمشکل 4 فیصد کم ہے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جب کرونا وبا کے عروج کے دوران ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ تھا۔ 12 ماہ کی تبدیل ہوتی اوسط پیداوار کم ہو کر 10.27 بلین یونٹس رہ گئی ہے جو آخری بار تین سال پہلے دیکھی گئی تھی۔

 ۔
۔

فیول کی پیداواری لاگت 112 ارب روپے رہی جو اس ماہ کے لیے ریفرنس لاگت سے 42 فیصد کم رہی جس کی وجہ سے 3.41 روپے فی یونٹ کی ایف سی اے ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پڑی۔ فیول کی اصل قیمت اور کرنسی کے مفروضے اور حقیقی پیداوار میں بہت کم انحراف کے باوجود فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کے مسلسل 15 ماہ ہو چکے ہیں۔ ماہانہ ایڈجسٹمنٹ مسلسل ہونے کی بنیادی وجہ مالی سال 24 کے لئے ریفرنس جنریشن کے لئے استعمال ہونے والے غلط مفروضوں سے انحراف ہے جہاں کوئلے اور ایل این جی پر مبنی پیداوار کا حوالہ دیا گیا تھا اور زمینی حقائق کو بالائے طاق رکھا گیا۔

ایندھن کی ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ ونڈ اور سولر انرجی جیسے قابل تجدید ذرائع سے پیداوار بھی مہنگی رہی ہے۔ مالی سال 2024 کے 11 ماہ کے دوران سولر انرجی پر اوسطاً 38.7 روپے فی یونٹ لاگت آئی ہے کیونکہ اصل پیداوار اس کے نصف سے بھی کم ہے جس کا بنیادی ٹیرف کے مفروضوں میں تصور کیا گیا تھا۔ اسی طرح ونڈ پاور پر 47 روپے فی یونٹ لاگت آئی ہے تاکہ 175 بلین روپے کی زبردست صلاحیت والے حصے کا راستہ بنایا جا سکے۔

 ۔
۔

سب سے بڑی رکاوٹ درآمدی کوئلے پر مبنی بجلی کی پیداوار ہے جس کی قیمت 96 روپے فی یونٹ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اصل پیداوار 16.5 بلین یونٹس پر حوالہ شدہ پیداوار کا ایک چوتھائی رہی ۔ زیادہ تر درآمدی کوئلے پر مبنی پاور پلانٹس کے لیے ایندھن کی بلند قیمت کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ترسیل کے میرٹ کے لحاظ سے کم ہیں لیکن صلاحیت کی ادائیگی اس سے قطع نظر کی جاتی ہے۔

یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ مالی سال 25 کے ریفرنس ٹیرف بہت بہتر مفروضوں پر مبنی ہیں جو زمینی حقیقت کے قریب ہیں۔ مثال کے طور پر مالی سال 25 کے لئے آر ایل این جی پر مبنی پیداوار کا حوالہ 22 ارب یونٹ لگایا گیا ہے جبکہ مالی سال 24 کے لئے یہ 6.6 بلین یونٹ تھا۔ اسی طرح درآمدی کوئلے سے کی جانے والی پیداوار 6.5 ارب یونٹس ہے جو مالی سال 24 کے 16.5 ارب یونٹس کے مقابلے میں زمینی حقائق سے کہیں زیادہ ہے۔ باقی سب کچھ مستقل ہے، ایک بہت بہتر جنریشن فیول مکس مفروضہ مالی سال 25 میں مثبت ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی فریکوئنسی اور شدت کو کم کرے گا۔ ایک بہت بہتر جنریشن فیول مکس مفروضہ مالی سال 25 میں مثبت ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی فریکوئنسی اور شدت کو کم کرے گا.

Comments

Comments are closed.