وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو ایک بار پھر ہدایت جاری کی ہے ۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی جانب سے بھی بار بار اس بات کی بازگشت سنائی دی ہے ۔

ان دونوں افراد کی دلیل یہ ہے کہ نجی شعبہ سرکاری شعبے کے مقابلے میں زیادہ موثر انداز میں کام کرتا ہے اور یہ فیصلہ وقت کے ساتھ ساتھ 2.6 ٹریلین روپے کے گردشی قرضوں میں مسلسل کمی کو یقینی بنائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دلیل چار مروجہ عوامل کی وجہ سے مناسب نہیں ہوسکتی ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ملکی یا عالمی سرمایہ کاری کیلئے اس ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول سازگار نظر نہیں آتا، جس کی وجہ جولائی سے 5 اپریل 2024 کے درمیان نجی شعبے کے قرضوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 54 فیصد کمی ہے ۔ جولائی تا جون 2023 تک جاری رہنے والے رجحان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 98.2 فیصد کی گراوٹ دیکھی گئی۔

17 جون 2023 کو قائم ہونے والی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) دوست ممالک سے اہم وعدے تو حاصل کرنے میں کامیاب رہی لیکن آج تک غیر پابند مفاہمتی یادداشتوں کو معاہدوں میں تبدیل نہیں کیاجاسکا ہے ۔

ماہرین اقتصادیات بھی پاکستانی حکام کی جانب سے ایم او یوز کو معاہدوں میں تبدیل کرنے کے وعدوں پر اپنے خدشات کا اظہار کررہے ہیں جس کے تحت خود مختار ضمانتوں (اسی طرز پر جس طرح چین پاکستان اقتصادی راہداری کی چھتری تلے سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی ہے جس میں پاکستان اپنی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کر رہا ہے)میں توسیع کی جائے گی جو پہلے ہی پارلیمنٹ اور قرض دینے والے اداروں کی جانب سے مقرر کردہ جی ڈی پی کے فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی طرح تعطل کا شکار معیشتوں کو سرمایہ کاری کو راغب کرنا انتہائی مشکل لگتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جن ڈسکوز کی نجکاری کو موجودہ حکومت نے تیزی سے آگے بڑھایا ہے، ان کی نشاندہی چار سے پانچ سال قبل کی گئی تھی لیکن یہ عمل روک دیا گیا تھا کیونکہ ان ڈسکوز کے ملازمین کی جانب سے مزاحمت کی گئی تھی اور اس وقت اپوزیشن جماعتیں مزدوروں کی حمایت میں کود پڑی تھیں۔

اس وقت ملک کی سیاست انتہائی تقسیم کا شکار ہے اور حکمراں جماعت کی قیادت ہر فورم پر اپوزیشن کے خلاف توہین آمیز بیانات دے رہی ہے جب کہ اپوزیشن 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا دعویٰ کرتی ہے اور فارم 45 اور اس کے مجموعی فارم 47 کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان کی نشاندہی کرتی ہے اور اگر حکومت اور عدلیہ کے درمیان حالیہ ٹکراؤ اور نجکاری کے حوالے سے سابقہ عدالتی فیصلوں کے عنصر کو مدنظر رکھا جائے تو غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے اپنے وعدوں کو پابند معاہدوں میں تبدیل کرنے میں ہچکچاہٹ کی توقع کی جانی چاہیے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اجارہ داری کے طور پر کام کرنے والی پرائیویٹائزڈ ڈسکو ٹیرف کو اس حد تک نہ بڑھائیں جو ان کے منافع کو غیر معمولی حد تک بڑھا دے کیونکہ نجی شعبے میں کام کرنے والی اجارہ دار کمپنیاں ایسا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جو اس سارے معاملے کا شاید سب سے پریشان کن پہلو ہے۔ایک ایسا پہلو جو طویل عرصے سے جاری حکومتی پالیسی میں اہمیت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جو آج تک کے الیکٹرک کی نجکاری کی کامیابی کو نقصان پہنچا رہا ہے، کامیابی کی تعریف وفاقی حکومت سے کوئی مالی مدد حاصل نہ کرنے کے طور پر کی گئی ہے جبکہ بجٹ میں ٹیرف سبسڈی کے برابر ہی ہوتا ہے۔

جب واپڈا ملک کی واحد ڈسٹری بیوشن کمپنی تھی تو ملک بھر میں یکساں ٹیرف کے تصور کی سیاسی اہمیت ہو سکتی تھی لیکن معاشی مطابقت کبھی نہیں تھی کیونکہ سپلائی کی لاگت ایک خطے سے دوسرے خطے میں مختلف ہوتی تھی۔

واپڈا کا ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک 17 سال سے زائد عرصہ قبل ڈونرز کی شرائط کے مطابق بند کردیا گیا تھا اور 12 ڈسکو ز قائم کی گئی تھیں۔کے الیکٹرک کے علاوہ سب حکومت کی ملکیت تھیں، تاہم آج تک کے الیکٹرک رواں سال کے لیے 171 ارب روپے (127 ارب روپے کے بقایا جات کے بجٹ سے زیادہ رقم) پر ٹیرف برابری سبسڈی حاصل کرنے والی کمپنی ہے جبکہ گزشتہ سال کے نظر ثانی شدہ تخمینوں میں 173 ارب روپے حاصل کئے تھے۔

لہذا حکومت کے لئے یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ آیا وہ نجکاری شدہ یونٹوں کو ٹیرف برابری سبسڈی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ صرف ڈسکو کو فروخت کے لیے پیش کرنا اس کا حل نہیں ہے اور کوئی بھی صرف یہ امید کر سکتا ہے کہ سمجھداری غالب آئیگی اور نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے سے پہلے عمومی معلومات رکھنے والوں کے بجائے ماہرین سے مشاورت کی جائے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

Comments are closed.