نجکاری کمیشن (پی سی) کے ایک عہدیدار نے جمعرات کو بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ہے قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی خریداری کے حوالے سے کمپنیوں کیلئے اظہار دلچسپی جمع کرانے کی تاریخ میں مزید توسیع کا امکان نہیں۔

عہدیدار نے کہا کہ درخواستوں کی تعداد کی تصدیق وقت ختم ہونے کے بعد کی جاسکتی ہے۔

اظہار دلچسپی (ای او آئی) جمع کرانے کی آخری تاریخ اس سے قبل وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدالعلیم خان نے دو ہفتوں (3 مئی سے 17 مئی) تک بڑھا دی تھی۔ اس دوران یہ غیر مصدقہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں نے پی آئی اے کی نجکاری میں ابتدائی دلچسپی ظاہر کی۔

وزیر برائے نجکاری نے یہ بھی کہا تھا کہ تین مقامی ایئر لائنز بھی ممکنہ خریداروں میں شامل ہیں اور وہ بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ ایک کنسورشیم بنانا چاہتی ہیں۔

بلومبرگ کا حوالہ دیتے ہوئے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ پاکستانی ٹائیکون عارف حبیب اور ایوی ایشن پر مبنی کمپنی جیریز گروپ ان 10 بولی دہندگان میں شامل تھے جو پی آئی اے میں اکثریتی حصص خریدنے کے خواہاں تھے۔

تاہم ایک ہفتے بعد عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ (اے ایچ سی ایل) نے واضح کیا کہ پی آئی اے میں اکثریتی حصص کی خریداری کے لیے اظہارِ دلچسپی کے ساتھ ساتھ اہلیت کا بیان (ایس او کیو) جمع کروانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ وہ بولی لگانے والوں میں شامل ہوگئے ہیں۔

کمپنی نے تصدیق کی کہ اس نے ای او آئی کے بعد ایس او کیو جمع کرایا تھا۔

بعد ازاں کمپنی نے اسٹاک ایکسچینج کو اپنے نوٹس میں کہا کہ یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ گزارش قیمت کے حوالے سے حساس معلومات کو تشکیل دیتی ہے اور نہ ہی یہ اے ایچ سی ایل کو بولی لگانے والے کا درجہ دیتی ہے جیسا کہ خبر میں ظاہر کیا گیا ہے۔

پی آئی اے کا انتظام سنبھالنا ایک ایسا اقدام ہے جس سے ماضی کی منتخب حکومتیں صرف نظر کرتی رہی ہیں کیونکہ اس کے انتہائی غیرمقبول ہونے کے خدشات قوی تھے تاہم نجکاری پر پیشرفت سے نقدی کی کمی کا شکار پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ طویل عرصے تک بڑے پروگرام پر مزید فنڈنگ کے مذاکرات میں مدد ملے گی۔

حکومت نے پی آئی اے کی طرح خسارے میں چلنے والے دیگر اداروں، ’اسٹریٹجک اداروں‘ کے سوا، تمام ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا اشارہ دیا ہے۔ تاہم حکومت نے اسٹریٹجک سے متعلق وضاحت نہیں کی۔

اتوار کو لاہور میں ہونے والی پری بجٹ کانفرنس میں پینل ڈسکشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا تھا کہ کوئی ”اسٹریٹجک ریاستی ملکیتی ادارے“ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ “اسٹریٹجک ریاستی ملکیتی اداروں کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہوگی اور ہم نجکاری کے ایجنڈے کو تیز کریں گے۔

پاکستان کو مطلوب نجکاری پروگرام، جس میں خسارے میں چلنے والی ڈسکوز بھی شامل ہیں، کو بہت سے لوگ نقد زرمبادلہ کی کمی کا شکار حکومت پر اخراجات کے بوجھ کو کم کرنے کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ہائی ٹیکسیشن اور انرجی ٹیرف کے ساتھ ترقی کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں، تاہم آئی ایم ایف کو توقع ہے کہ رواں مالی سال میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 2 فیصد اضافہ ہوگا۔

Comments

Comments are closed.