بلاول بھٹو کا اپوزیشن کو حکومت سے مذاکرات کا مشورہ
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو مدعو کرنے کے بجائے صرف حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کے اراکین کی جانب سے حکومت مخالف نعروں کے درمیان قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات سے متعلق بیانات پر پی ٹی آئی کو دہرا معیار اپنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے مسائل کا واحد حل سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت نے کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی واضح طور پر قائم کی، پی ٹی آئی کے اراکین عوام کو درپیش مسائل پر بات کرنے کے بجائے صرف اپنے ذاتی مسائل اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے اپوزیشن پر زور دیا کہ وہ اپنے ذاتی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ملک کے مسائل کا حل تلاش کریں ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اپوزیشن بھول گئی ہے کہ وہ قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن قانون کی حکمرانی کے لیے لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ منتخب نمائندوں سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں بلکہ مذاکرات کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
انہیں نہ جمہوریت میں اور نہ ہی قانون کی حکمرانی میں دلچسپی ہے، انہیں صرف اپنے ذاتی معاملات میں دلچسپی ہے ، یہ منافقت کی سیاست ہے۔
انہوں نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ احتجاج ان کا جمہوری حق ہے لیکن ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ان کی ترجیح ہونی چاہیے۔
آئندہ بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو بجٹ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری نے سندھ حکومت کے ہیلتھ کیئر کے شعبے میں کام کو تاریخی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام صوبوں سے لوگ علاج کے لیے سندھ جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سندھ حکومت نے محکمہ تعلیم میں ساختی مسائل کو ہدف بنایا ہے۔ انہوں نے گھوسٹ ٹیچرز کے مسئلے پر بات کی اور وضاحت کی کہ بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرانے کے ذریعے اس مسئلے کا کافی حد تک خیال رکھا گیا۔
آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کشمیریوں کے لئے فنڈز مختص کرنے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا کیونکہ یہ ان کا جائز مطالبہ تھا۔
بلاول نے گندم سکینڈل پر بھی بات کی ، اس موقع پر انہوں نے وزیراعظم سے معاملے کی تحقیقات پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ سبسڈی پر اربوں خرچ کرنے کے بجائے حکومت کسان کارڈ کے ذریعے کسانوں کی حوصلہ افزائی کرے ، زرعی شعبہ متضاد پالیسیوں اور سیاسی فیصلوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ 10 سالہ پالیسی کے طور پر زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے کے علاوہ برآمدات پر سے پابندیاں ہٹائیں۔
پنجاب، بلوچستان اور دیگر صوبوں میں کسانوں کے احتجاج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سابق نگراں حکومت کو جوابدہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن قیادت نے 9 مئی کو ملک کے لیے جانیں قربان کرنے والے شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرکے دہشت گردی کی ۔
انہوں نے عمران خان کی قائم کردہ پارٹی کے اپوزیشن ارکان کو غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ قرار دیا جن کی ملکی سیاست میں عدم دلچسپی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا رہنما جیل میں رہائی کے لیے رو رہا ہے۔
حزب اختلاف کے قانون سازوں کی طرف سے گو زرداری گو، مسٹر 10 پرسنٹ وغیرہ کے نعروں کے درمیان بلاول نے ہیڈ فون لگانے کے بعد اپنی تقریر جاری رکھی جب کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایس آئی سی کے اراکین کے احتجاج شروع ہونے کے بعد پی پی پی کے متعدد اراکین ان کے گرد جمع ہوگئے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے بارے میں بلاول نے کہا کہ پی ٹی آئی نے پہلے بزدار پنجاب کو تحفے میں دیا اور اب چاہتی ہے کہ علی امین گنڈا پور جیسے وزیراعلیٰ کو لگا کر خیبرپختونخوا کو بھی اسی طرح کا نقصان اٹھانا پڑے۔
انہوں نے خطاب میں قومی مسائل پر توجہ دینے اور ذاتی یا سیاسی معاملات سے گریز کرنے پر صدر آصف علی زرداری کی تعریف کی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدارتی خطاب پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اویس حیدر نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں پسماندہ علاقوں کی ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
شگفتہ جمانی نے نشاندہی کی کہ یہ صدر زرداری تھے جنہوں نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو سونپے۔
آسیہ ناز تنولی نے کہا کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت نے پاکستان کی تبدیلی کے بڑے بڑے دعوے کیے لیکن ہر وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی۔
ریاض فتیانہ نے سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت تعلیم کے فروغ کے لیے وسائل بڑھانے پر زور دیا۔
شہلا رضا نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ملک کو آگے لے جانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت اور اتفاق رائے کا راستہ اختیار کیا۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ کراچی پاکستان کا مالیاتی حب ہے اور اس کے پانی سمیت دیگر مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے بلوچستان میں کسانوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو رعایتی نرخوں پر بجلی فراہم کی جائے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments
Comments are closed.