گندم کے بحران نے بہت سے پریشان کن سوالات کو جنم دیا ہے جو انتظامی سطح پر مروجہ طریقہ کار کے گرد گھومتے ہیں کہ دایاں ہاتھ کیا کررہا ہے جس کا بائیں ہاتھ کو شاذ و نادر ہی معلوم ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ایک ہاتھ ہیرا پھیری میں مصروف ہے جس کا دوسرے ہاتھ کو پتہ نہیں چلتا۔

گندم کا بحران دو ناقابل تلافی حقائق سے پیدا ہوا ہے۔ ان میں سے اک انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں نگراں حکومت جو اگست 2023 سے مارچ 2024 کے درمیان 370 بلین روپے کی لاگت سے نجی شعبے کے ذریعے 3.5 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی ذمہ دار تھی، حالانکہ اس موسم بہار میں گندم کی بڑی فصل کی پیشگوئیاں تھیں۔

اس 3.5 ملین ٹن درآمد شدہ گندم میں سے 1.3 ملین ٹن گندم میں پھپھوندی پائی گئی جس وجہ سے یہ انسانی استعمال کے قابل نہیں تھی۔ باقی گندم سے بھی سرکاری گودام مکمل طور پر بھر گئے تھے۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ جب اس سیزن میں 28-29 ملین ٹن گندم کی بڑی فصل آئی تو حکومت کے پاس اسے ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی اور نہ ہی 3,900 روپے فی من کی سرکاری اعلان کردہ امدادی قیمت پر اسے خریدنے کے لیے مالی وسائل موجود تھے۔

لہٰذا کسانوں سے گندم کی خریداری میں حکومت پنجاب (گندم کا سب سے بڑا پیدا کنندہ) کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ نتیجتاً غریب کسان اپنی گندم 2800-3000 روپے فی من کے حساب سے مارکیٹ میں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

گندم کے شعبے میں بحران نے کسان تنظیموں میں غصہ پھیلا دیا یا یوں کہہ لیں کہ کسان تنظیموں میں اشتعال انگیزی پھیل گئی۔ پاکستان کسان اتحاد (پی کے آئی) کے صدر خالد محمود کھوکھر نے الزام لگایا ہے کہ ایک مافیا گندم کی غیر ضروری درآمد سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں کسانوں کو 400 بلین روپے کا نقصان ہوا ہے اور کوئی قابل عمل آپشن نہیں بچا ہے، 10 مئی 2024 کو اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں اور مویشیوں کے ساتھ (بھارت میں کسانوں کے احتجاج کے سائے تلے) سڑکوں پر آنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔

خالد محمود کھوکھر نے یہ بھی واضح طور پر نشاندہی کی کہ جب تک بحران حل نہیں ہوتا، کسان کپاس اور چاول کی کاشت نہیں کر سکیں گے اور مستقبل میں گندم کی پیداوار متاثر ہونے سے بچ نہیں سکے گی۔

پاکستان کسان رابطہ کمیٹی (پی کے آر سی) کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے اس کا الزام نگران حکومت پر عائد کرتے ہوئے سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، گندم اسکینڈل میں ملوث بیوروکریٹس اور درآمد کنندگان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت درآمدی پالیسی سے بری طرح متاثر کسانوں کو معاوضہ ادا کرے۔

اس کے جواب میں جو کہ بحران ثابت ہوسکتا ہے اور مزید بگڑ بھی سکتا ہے وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے گندم کی درآمد کے اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی قائم کردی ہے۔ یہ تحریر لکھنے تک کمیٹی کی رپورٹ نہیں آسکی تاہم بیوروکریٹس کی سربراہی میں بننے والی ایسی انکوائری کمیٹیوں کے مبہم ہونے اور قصورواروں کو پناہ دینے کے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے اس کی ساکھ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

یہ معاملہ اس لیے بھی پریشان کن ہے کیوں کہ انوار الحق کاکڑ کو اسٹیبلمشنٹ کا منظور نظر سمجھا جاتا ہے جنہیں خدمات کے صلے کے بدلے سینیٹ کی نشست الاٹ کی گئی ہے۔

کچھ مبصرین کے مطابق انوار کاکڑ کے لیے بڑے معاملات طے کیے جانے تھے تاہم معاملات خواہشات کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہے۔ قیاس آرائیوں کا ایک مجموعہ بتاتا ہے کہ اسحاق ڈار کی نائب وزیر اعظم کے طور پر ناقابل فہم تقرری ایک پیشگی اقدام تھا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ میں موجود بعض افراد کو انوار الحق کاکڑ کیلئے مطلوب تھا۔

اپنے دور حکومت میں گندم کی درآمد میں ناکامی کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنے پر انوار کاکڑ نے سارا الزام صوبائی حکومتوں کے کھاتے میں ڈال دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ گندم کے ذخائر کی صورتحال سے متعلق صوبائی حکومتوں کی فراہم کردہ معلومات سے تشویشناک حد تک کمی کا خدشہ ظاہر ہوا جس سے درآمدات میں عجلت کی گئی۔

کیا وفاقی حکومت کے پاس ملک میں گندم کے ذخیرے کی کوئی معلومات نہیں؟ کیا یہ صوبائی حکومتوں کے ڈیٹا کو چیک کرنے اور اس پر نظر ثانی کرنے سے قاصر ہے؟ کیا ان سب کا کوئی ریکارڈ وفاقی حکومت کے اعلیٰ دفتر کے پاس دیکھنے کے لیے دستیاب نہیں ہے؟

نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) میں اپنے کردار کو دوبارہ فعال کرنے کا آغاز کیا ، انہوں نے جو حکومت اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو عطا کی، اب حکومت سے چاہتے ہیں کہ وہ اس بحران کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرے اور کوئی سزا سے نہ بچ سکے چاہے سیاسی حوالے سے اس کچھ بھی اثرات ہوں اور اس اسکینڈل کو تحقیقات کیلئے قومی احتساب بیورو (نیب) یا وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھیج دیا جائے۔

تاہم شہباز حکومت ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتی ہے، غالباً ان کی حکومت انوار کاکڑ و دیگر کیخلاف کارروائی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کو لگام ڈالنے میں ہچکچکاہٹ کا شکار نظر آتی ہے۔

یہاں ایک بار پھر دونوں بھائیوں کے نقطہ نظر میں فرق ابھر رہا ہے۔ نواز شریف بے باک ، شہباز شریف کا مصلحت کار یا پھر تعاون کرنے والا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان ’اختلافات‘ کو ایک بار پھر ٹھیک کر لیں جیسا کہ وہ 2022 سے کر رہے ہیں تاہم اس معاملے سے لگتا ہے کہ لیکن اسٹیبشلمنٹ سے متعلق معاملات پر مسلم لیگ کے اندر اب بھی کشمکش یا اختلافات پائے جاتے ہیں۔

Rashed Rahman

[email protected] , rashed-rahman.blogspot.com

Comments

Comments are closed.