پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط موصول ہوگئی۔

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 29 اپریل کو ہونے والےاجلاس میں پاکستان کے معاشی اصلاحاتی پروگرام کا دوسرا اور آخری جائزہ مکمل کیا اور اس پروگرام کے تحت پاکستان کے لیے 1.1 ارب ڈالر کی فوری منظوری دی گئی ۔

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 29 اپریل 2024 کو1.1 ارب ڈالر موصول ہوئے ۔ یہ رقم 3 مئی 2024 کو ختم ہونے والے ہفتے میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں ظاہر ہوں گی۔

تاہم یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر بیرونی قرضوں کی کوئی بڑی ادائیگی نہیں کی گئی تو ان رقوم کی آمد سے اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر بڑھ کر 9 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔

19 اپریل 2024 کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اپریل کے پہلے ہفتے میں یورو بانڈ کے 1 ارب ڈالر کی ادائیگی کے باوجود اسٹیٹ بینک کے ذخائر تقریباً 8 ارب ڈالر کی سطح پر رہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے معاشی استحکام کیلئے جولائی 2023 میں 3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی پروگرام حاصل کیا تھا۔

پروگرام کو ایسے مشکل معاشی ماحول میں منظور کیا گیا جب ملک کو بڑے مالیاتی، بلند بیرونی خسارے، بڑھتی افراط زر اور زرمبادلہ کے کم ذخائر جیسے چیلنجز کا سامنا تھا۔

ایس بی اے کے تحت یہ تیسری اور آخری تقسیم ہے۔ 1.2 ارب ڈالر کی پہلی قسط 13 جولائی 2023 کوموصول ہوئی تھی ۔

پہلے جائزے کی کامیاب تکمیل کے بعد جنوری میں تقریباً 700 ملین ڈالر کی دوسری قسط موصول ہوئی اور ایس بی اے کی تیسری اور آخری قسط 29 اپریل 2024 کو جاری کی گئی جو 1.1 ارب ڈالر کی رقم ہے۔اس رقم کی وصولی کے بعد دونوں فریقین کے مابین اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ مکمل ہوگیا۔

ایس بی اے پروگرام کی تکمیل پر، پاکستان ملک میں میکرو اکنامک استحکام کے حصول کے لیے طویل مدتی قرض پروگرام کے لیے ۤئی ایم ایس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔

ایس بی اے کی حتمی قسط کی منظوری دیتے ہوئے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پروگرام کے دوران پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری آئی ہے اور مالی سال 24 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2 فیصد متوقع ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے 29 اپریل 2024 کو ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اپنے بیان میں بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ اسٹیٹ بینک کا سخت مانیٹری پالیسی موقف اس وقت تک مناسب رہے گا جب تک مہنگائی مزید معتدل سطح پر نہیں آجاتی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف