سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی کام میں مداخلت سے متعلق خط پر ازخود نوٹس کی سماعت منگل کو ملتوی کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔

آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کو کسی بھی کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے سوال پر دائرہ اختیار سنبھالنے کا غیر معمولی اختیار حاصل ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کسی بھی شخص، سرکاری افسران یا کسی بھی سرکاری محکمے سے دستاویز یا ریکارڈ طلب کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ یا تو کسی بھی فریق کی طرف سے عدالت میں دائر کی گئی درخواست یاپھر اپنے از خود نوٹس کی بنیاد پر دائرہ اختیار پر زور دے سکتا ہے۔

پس منظر

مارچ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفعت امتیاز سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو خط لکھ کر عدالتی امور میں انٹیلی جینس ایجنسیوں کی مداخلت پر رہنمائی طلب کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے عدالتی کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور دھمکیوں سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر از خود نوٹس لیا۔

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنی اپنی عدالتوں میں فل کورٹ میٹنگز کیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ مستقبل میں ان کے عدالتی کام میں اس طرح کی مداخلت کی صورت میں ادارہ جاتی ردعمل دیا جائے گا۔

Comments

Comments are closed.