اپریل میں مہنگائی 18 فیصد پر آنے کے باوجود اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کو 22 فیصد کی سطح پر برقرار رکھا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ افراط زر کی وجہ سے نہیں لیا گیا ، بنیادی طور پر اس کی وجوہات بیرونی ہیں جو مانیٹری پالیسی کمیٹی میں جارحانہ نقطہ نظر رکھنے والوں کی کامیابی ہے۔ چونکہ بیرونی اثرات کا غلبہ ہے اس لیے یہ فیصلہ شاید واشنگٹن ڈی سی سے متاثرہوکر کیا گیا ہے ۔

غیر مُصَدقّہ اطلاعات یہ ہے کہ اپریل 2024 میں اسٹیٹ بینک کا ووٹنگ پیٹرن بڑی حد تک 8 اور 2 پر برقرار رہا جہاں صرف 2 اراکین نے شرح سود میں کمی کے حق میں ووٹ دیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مہنگائی میں کمی کو دیکھتے ہوئے مزید کسی ممبر نے شرح سود میں کمی کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ممبران میں شرح سود برقرار رکھنے کے بارے میں باریک بینی سے بات کی گئی تھی۔ شرح سود میں کمی قرض دہندہ کو مطمئن کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک کا آخری حربہ نہیں ہو سکتا۔

اچھی خبر یہ ہے کہ تقریباً تمام 8 ممبران جنہوں نے شرح سود کو 22 فیصد کی شرح پر مستحکم رکھنے کیلئے ووٹ دیا تھا وہ اب اس بات پر قائل ہیں کہ جون میں شرح میں کمی کی جائے گی۔ اب شاید 10 میں سے 10 ممبران ریٹ میں کمی کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور شاید ان سے متاثرہ لوگوں کی سوچ بھی ایسی ہی ہے۔

دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ افراط زر کم ہو رہا ہے اور حقیقی قیمتیں طلب کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی مختصر مدت میں مالیاتی اخراجات کو کم کرنے کے لیے بہت کم گنجائش دی گئی ہے ۔

آج صورتحال اس کے برعکس ہے جو 2022 میں تھی ۔ اس وقت حقیقی شرحیں منفی تھیں اور دولت غریب سے امیر کی طرف منتقل ہو رہی تھی۔ اور آج بہت زیادہ حقیقی شرحوں کے ساتھ (تقریبا صفر ترقی اور سخت مالیاتی پالیسی کے پیش نظر) اس کا بالکل الٹا اثر ہے۔

بہر حال، چونکہ ایس بی پی نے زری سختی میں دیر کر دی تھی جب مہنگائی بڑھ رہی تھی، اب ایس بی پی حقیقی شرحیں بلند رکھ کر ایک متوازن عمل کررہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مہنگائی نیچے آئے اور نچلی سطح پر رہے۔

بینک اب ٹریژری بلوں کی نیلامی میں زیادہ کٹ آف مانگ سکتے ہیں کیونکہ وہ شاید اپنے اوایم اوز کی خریداری پر منفی اثر ڈالتے ہیں ۔ 3 ایم بل یقیناً اگلی نیلامی میں 22 فیصد تک بڑھے گا تاکہ مالیاتی فنانسنگ میں معمولی اضافہ ہو سکے ۔ اس طرح مہنگائی کم رہنے اور کرنٹ اکاؤنٹ کے قابل انتظام رہنے کا امکان ہے۔

ویسے بھی 2022 کی پہلی ششماہی میں مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں میں سست روی کے پیش نظر محتاط رہنے میں بہتری ہے ۔ اب 2023-24 میں دونوں پالیسیاں مستقل طور پر سخت ہیں اور اس کا نتیجہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور مستحکم کرنسی کے حوالے سے سامنے آرہا ہے ۔ بین الاقوامی اشیاء خاص طور پر خوراک کی قیمتیں بھی نیچے آ رہی ہیں جس سے افراط زر کے دوبارہ ابھرنے کے خطرات کم ہو رہے ہیں۔

اس طرح مہنگائی کم رہنے اور کرنٹ اکاؤنٹ کے قابل انتظام رہنے کا امکان ہے۔ جوچیز زیادہ نقصان پہنچارہی ہے وہ کم شرح ترقی ہے کیونکہ زراعت کو چھوڑ کر باقی سب کچھ یا تو منفی ہے یا سست رفتار سے بڑھ رہا ہے اور اس میں جلد کسی بھی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ سود کی شرحیں کم ہوسکتی ہیں لیکن مستقبل قریب میں شرح میں مزید بہتری کا امکان ہے ۔

Comments

Comments are closed.