سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی کام میں مداخلت سے متعلق خط پر از خود کیس کی سماعت کی ہے۔
بنچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے ہیں، جس میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کو کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے معامے میں غیر معمولی اختیار حاصل ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کسی بھی شخص، سرکاری افسران یا کسی بھی سرکاری محکمے سے دستاویز یا ریکارڈ طلب کر سکتی ہے۔
پس منظر
مارچ میں اسلام آباد کے ججوں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفعت امتیاز نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو خط لکھ کرعدالتی کاموں میں انٹیلی جنس ایجنسیاں کی مداخلت پر رہنمائی مانگی تھی۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے عدالتی کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور دھمکیوں کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خط پر از خود نوٹس لیا تھا۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنی اپنی عدالتوں میں فل کورٹ میٹنگز کیں۔ اسلام آباد کے ججوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ مستقبل میں ان کے عدالتی کام میں اس طرح کی مداخلت کی صورت میں ادارہ جاتی ردعمل دیا جائے گا۔
Comments
Comments are closed.